وزیراعظم عمران خان کا تاریخی کارنامہ

پاکستان میں جمہوری حکومتیں پہلے بھی آئی ہیں، لیکن کسی بھی حکومت نے اپنے وزراء اور ساتھیوں کے کرپشن اور لوٹ مار کی تفتیشی رپورٹ پبلک نہیں کی ہے اور اگر عدالت یا کسی دوسرے دباؤ کے تحت حکومت وقت کو اس طرح کے تحقیقات بہ امر مجبوری کرنا پڑی ہیں تو ان تحقیقات کو سرد خانے کی نذر کیا گیا، اس لئے شائد یہ پہلی بار ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم نے اپنے ہی حکومت میں شامل طاقتور وزراء و سیاسی شخصیات کی مبینہ کرپشن ( آٹا اور چینی) کی تحقیقات کے لئے غیر جانبدار کمیٹیاں بنائیں، حکومت نے نہ صرف تحقیقاتی کمیٹی کو آزادانہ کام کرنے دیا بلکہ جو تحقیقات سامنے آئی انہیں من و عن تسلیم کیا اور بجائے اپنے دوستوں کو بچانے اس تحقیقاتی رپورٹ کو پوری قوم کے سامنے رکھ دیا، یہ بلاشبہ ایک قابل تحسین اقدام ہے جس کی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

پانامہ لیکس جے آئی ٹی سے شہرت پانے والے اور موجودہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان تمام کرداروں کو بے نقاب کیا ہے جنہوں نے2019 میں آٹے اور چینی کی مصنوعی بحران پیدا کرکے اربوں روپے کمائے، تحقیقاتی رپورٹ میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی بھی بتائی گئی ہے کہ کس طرح پہلے چینی بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی اور ایکسپورٹرز کو قومی خزانے سے سبسڈی بھی دی گئی اور پھر جب ملک کے اندر چینی کی قلت پیدا ہوئی تو انہی ایکسپورٹرز کو چینی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی اور اس پر ڈیوٹی معاف کرکے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ ایف آئی تحقیقاتی کمیٹی نے ملک میں آٹے کی ذخیرہ اندوزی کرکے اربوں کمانے والے فلور مالکان اور مافیا کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس پورے مصنوعی بحران سے جہاں دوسرے سرمایہ داروں نے فائدہ اٹھایا وہاں پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں میں شامل سیاسی شخصیات نے بھی قومی خزانے کو لوٹا۔

ایف آئی اے پورٹ کے مطابق گزشتہ برس چینی پر تین ارب کی سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ یعنی 22 فیصد جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ جہانگیر ترین کے جے ڈبلیو ڈٰی گروپ نے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی، وفاقی وزیر صوبہ بندی خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروہ نے 35 کروڑ سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔ اسی طرح ال موئز گروپ (مونس الہی، سپیکر پنجاب اسمبلی کے فرزند) نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں حکومتوں نے جو سبسڈی دی ان میں سے آر وائی کے گروپ نے چار ارب ، جہانگیر ترین نے تین ارب روپے سے زائد جبکہ ہنزہ گروپ نے دو ارب 80 کروڑ اور فاطمہ گروپ دو ارب 30 کروڑ کی سبسڈی لی۔ رپورٹ کے مطابق شریف گروپ نے ایک ارب 40 کروڑ جب کہ اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی، اومنی گروپ وہی ہے جس پر نیب عدالت میں منی لانڈرنگ کیس چل رہا ہے۔ رپورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتوں کی نااہلی بھی سامنے لائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خرید کا سیزن اپریل کے مہینے سے شروع ہوتا ہے جو جون تک چلتا ہے۔ اس دوران وزیراعلی عثمان بزدار نے محکمہ فوڈ سیکیورٹی کے چار سیکریٹری تبدیل کئے، جن میں شوکت علی، نسیم صدیق، ظفر نصراللہ اور وقاص علی محمود شامل ہیں۔ تقرر کیے گئے چار سیکرٹریوں کے لیے تیار کی گئی سمریوں میں وجوہات درج نہیں کی گئیں اور یہ تمام زبانی احکامات کے تحت کی گئیں۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ انتظامی تبدیلیاں شوگر انڈسٹری کی دباؤ پر کی گئی۔ اسی طرح تحقیقاتی رپورٹ میں خیبرپختونخوا میں گندم کی قلت اور اوور پرائسنگ کی ذمےداری وزیر خوراک قلندر لودھی، سیکریٹری اکبر خان اور ڈائریکٹر فوڈ سادات حسین پر ڈال دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف وزیراعظم عمران خان کو موصول ہو چکی ہے بلکہ انہی کی حکم پر پبلک بھی کی گئی ہے، اگر چہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں اور تجزیہ کار اب بھی اس رپورٹ کو حکومتی چال اور نمبر سکورنگ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ ان جیسے بڑے مگرمچھوں کو سزا نہیں ملے گی، تاہم وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فرانزک رپورٹ آنے کے بعد ملوث تمام شخصیات کے خلاف ضرور قانونی کارروائی کی جائے گی، بعض باخبر ذرائع یہ خبر بھی دے رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بی آر ٹی تحقیقاتی رپورٹ کو بھی عوام کے سامنے لانے اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ بہت اہم پیش رفت ہے اگر وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت سے احتساب شروع کرتے ہیں اور کرپٹ وزرا کو سزائیں دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عوام کا نہ صرف احتسابی عمل بلکہ حکومت پر بھی اعتماد بحال ہوگا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket