پختون خوا کابینہ کا اجلاس اور انتخابات کا شور

پختون خوا کابینہ کا اجلاس اور انتخابات کا شور

عقیل یوسفزئی

گزشتہ روز خیبر پختون خوا کابینہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات پورے ملک میں ہونے والے الیکشن پراسیس کے دوران منعقد کئے جائیں. اس مطالبے یا تجویز پر پی ٹی آئی سمیت بعض دیگر حلقوں نے اعتراضات کئے اور موقف اپنایا کہ پختون خوا کابینہ نے کس مینڈیٹ کے تحت یہ موقف پیش کرنا لازمی سمجھا؟
اس مطالبے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کو عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں اور حکومتیں توڑنے کے باعث ایک جیسی صورتحال اور مسائل کا سامنا ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک متنازعہ فیصلہ کے مطابق پنجاب میں الیکشن کرانے کے احکامات تو جاری کئے مگر پختون خوا کو نظر انداز کیا. اب تحریک انصاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے لگی ہے.
کوئی بھی یہ سیاسی نکتہ نہیں اٹھا رہا کہ اگر وقت سے پہلے پھر سے الیکشن کرانے تھے تو اسمبلیوں کو توڑا کیوں؟ یہ قانونی ایشو سے زیادہ سیاسی اور اخلاقی مسئلہ ہے کہ عمران خان نے محض پریشر ڈالنے اور بحران پیدا کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا تھا. پریشر عدلیہ کی حد تک تو بنتا دکھائی دیا اور بحران بھی پیدا ہوا تاہم الیکشن کرانے کی تمام کوششیں بوجوہ ناکام رہی ہیں.
اب یہ بات بہت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ الیکشن کم از کم نومبر سے قبل تو نہیں ہونے والے.
کابینہ کے اجلاس میں پختون خوا میں سیکیورٹی کی صورتحال پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ یہاں کے حالات تو الیکشن کے لئے فی الحال بلکل سازگار نہیں ہیں.
بعض حلقے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر 2008.اور 2013 میں الیکشن ہوسکتے تھے تو اب کیوں نہیں. اس ضمن میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس وقت ملک بالخصوص پختون خوا کو صرف سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش تھا اور الیکشن پر تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر تھیں. اب نہ صرف یہ کہ سیکیورٹی فورسز کو بدترین حملوں کا سامنا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت بھی بوجوہ الیکشن کے حق میں نہیں ہیں. دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کو اقتصادی اور انتظامی مشکلات بھی درپیش ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بات کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ اگر الیکشن ہوں گے تو اس کے نتائج سے کوئی نیا بحران جنم نہیں لے گا اور سیاسی قیادت خصوصاً عمران خان صاحب یہ نتائج تسلیم کریں گے؟
اس صورتحال میں بہتر راستہ یہ ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی کشیدگی کو کم کرنے پر توجہ دیکر اکتوبر نومبر کا انتظار کیا جائے اور تمام اسمبلیوں کے انتخابات حسب سابق ایک ہی وقت میں کرانے پر اتفاق رائے کی راہ ہموار کی جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket