پاکستان بالخصوص خیبرپختونخواہ میں اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کی مجموعی صورتحال مقبول عام تبصروں اور تاثر کے برعکس کافی بہتر اور تسلی بخش رہی ہے جبکہ میڈیا کے ذمہ داروں اور حلقوں نے بھی ہر دور میں کوشش کی کہ ان کی رپورٹنگ اور تجزیوں کی بنیاد درست معلومات اور حقائق پر قائم ہو۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ غیر معمولی حالات اور جنگی ماحول کے باوجود اعتماد سازی کا ماحول قائم رہا۔
متعلقہ ریاستی اداروں اور میڈیا کے درمیان ہر دور میں مثبت اور مثالی تعلقات رہے اور ان کی مشترکہ کوشش رہی کہ دوسرے شہروں کے برعکس یہاں پیشہ ورانہ ماحول ہو تاکہ صوبے اور خطے کے عوام کے اظہار رائے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے علاوہ مسائل کے حل کے امکانات بھی ڈھونڈے جا سکیں۔
خیبر پختونخوا چونکہ تاریخی طور پر قوم پرست اور مذہبی قوتوں کا مرکز رہا ہے اس لیے یہاں پر ان دو مختلف الخیال نظریات کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال رہی جبکہ افغانستان کے حالات بھی صوبے کی سیاست، معاشرت اور معیشت پر اثر انداز ہوتے رہے۔ ان دو عوامل نے عوام کو فطری طور پر تقسیم کیے رکھا مگر یہاں میڈیا متنازعہ معاملات میں کبھی فریق نہیں بنا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبے کے عوام میں مخالفانہ اور مزاحمتی قوتوں کو کبھی مقبولیت حاصل نہیں رہی۔
دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی طویل جنگ میں جہاں فورسز، سرکاری ملازمین اور سیاسی کارکنوں نے قربانیاں دیں وہاں صوبے کے میڈیا نے بھی مسلسل دو طرفہ دباؤ کے باوجود امن کے قیام کے لیے بہت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور بہت سے صحافیوں نے جانوں کی قربانیاں بھی دیں۔ اگرچہ بعض مخصوص سیاسی حلقے ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو تصویر کا ایک رخ دکھانے میں مصروف عمل رہے اور بعض برخلاف حقائق نعروں کی آڑ میں عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرتے رہے تاہم عوام کی اکثریت میں ان کو کوئی مقبولیت نہیں ملی اور پروپیگنڈہ مہمات کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
جہاں تک اظہار رائے کا تعلق ہے اس کی حالت یہی رہی کہ سیاسی مذہبی قوتوں کے علاوہ لاتعداد سرکاری افسران اور ملازمین اس کے باوجود اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ریاست کے حساس معاملات اور پالیسیوں پر سرعام تبصرہ کرتے رہے بلکہ متعدد بیرونی ایجنڈوں کا حصہ بھی بنے رہے مگر ان کو کھلی چھوٹ دی گئی اور کسی کے خلاف بھی کوئی بڑی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی حالانکہ ایسا کرناسروسز کی خلاف ورزی میں آتا ہے اور اس عمل کی کسی ملک میں اجازت نہیں ہوتی۔
بعض سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بےچینی اور منافرت پھیلانے والے عناصر کی سخت حوصلہ شکنی لازمی ہے تاہم ریاستی ادارے اب بھی تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔