پیر بابا مزار میں بیٹھا انوکھا مصنف
تحریر :عبداللہ یوسفزئی
ضلع بونیر کے بلندوبالا پہاڑوں کے بیچ و بیچ حضرت پیر بابا کا مزار واقع ہے- مزار پر ہمہ وقت عقیدت مندوں کا رش ہوتا ہے- کچھ لوگ دور دراز علاقوں سے آکر حاضری لگاتے ہیں اور پھر راہ پکڑ لیتے ہیں لیکن کچھ عقیدت مند ایسے بھی ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دربار کے احاطے میں رہتے ہیں گویا کہ بابا کے قرب سے انھیں یوں سکون ملتا ہو جیسے پیاسے کو پانی پینے سے ملتا ہے- ایسے ہی ایک عقیدت مند کا تعارف آج ہم آپ سے کروائیں گے جو پقینا آپ کو حیرت میں ڈال دے گا کیونکہ ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں۔
دربار کے صحن میں نظر دوڑانے پر آپ کو ایک ایسی شخصیت ضرور ملے گی جس کے ہاتھ میں قلم اور کاپی ہوگی- دنیا سے بے خبر ہوکر سایہ دار درختوں کے نیچے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہتا ہے- اس شخصیت کا نام انور بیگ باغی ہے جس کی عمر 74 سال ہے- باغی پیر بابا( حضرت پیر بابا کی مناسبت سے علاقے کا نام بھی پیر بابا پڑگیا ) ہی کا رہائشی ہے اور دربار کو اپنا گھر بار مانتے ہیں- بد قسمتی اور غربت کی وجہ سے باغی صرف پرائمری سطح تک پڑھ چکا ہے لیکن یہ ان کا شوق تھا کہ وہ زمینداری کے ساتھ کتب بینی کرتا تھا- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو زندہ رکھا- باغی خود تو تعلیم سے محروم رہا لیکن سات بچیوں اور تین بچوں کو ماسٹر تک تعلیم دلواچکے ہیں۔
باغی نے دربار میں ایک چھوٹا سا کمرہ کتابوں کیلئے مختص کیا ہے- یہ کمرہ لائبریری کی شکل میں سجایا گیا ہے جو نئے آنے والے بندوں کی توجہ حاصل کرتا ہے- دہائیاں گزر جانے کے باوجود بہت کم لوگ اسے بطور مصنف جانتے ہیں جو کہ باعث تشویش ہے کیونکہ وہ ادبی دنیا کا عظیم اثاثہ ہے- جو لوگ باغی کو جانتے ہیں انکا ماننا ہے کہ باغی کا قلم کبھی رک نہیں سکے گا- جب کبھی باغی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے تو لکھائے شروع کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔
انور بیگ باغی نے وائس آف کے پی کو بتایا کہ وہ پچھلی پانچ دہائیوں سے یہ کام کرہا ہے اور پچاس سے زائد تصانیف لکھ چکے ہیں، یہ تعداد بڑھ بھی سکتی تھی لیکن کئی تصانیف ضائع ہوچکی ہیں کیونکہ ان کتابوں کی کاپیاں موجود نہیں تھیں- وہ کہتے ہیں کہ ان کی پہلی کتاب پشتو شاعری کا ایک مجموعی ہے جو ” ث م” کے نام سے موجود ہے- کتاب کے عنوان سے متعلق ان کا خیال ہے کہ عنوان دیکھ کر لوگ کتاب پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ جب تک کتاب نہ پڑھی جائے عنوان کی سمجھ نہیں آئے گی- دوسری کتاب “د ورک منزل لٹون” جبکہ تیسری کتاب ” ازغنہ لار” کے نام سے شائع ہوچکی ہے جو کہ پشتو مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔باغی بہترین تاریخ دان بھی ہیں ” د بونیر تاریخ” یعنی بونیر کی تاریخ ان کی مشہور کتاب ہے- مقبولیت کی وجہ سے اس کے پانچ ایڈیشن آچکے ہیں، جو دس سال کے طویل دورانیے میں مکمل ہوچکی ہے- ان کے مطابق تاریخ لکھنا سب سے مشکل کام ہے کیوں کہ صحیح معلومات حاصل کرنے کے لئے وقت، سفر اور ریسرچ کی ضروت ہوتی ہے- ان کی تصانیف کی لگ بھگ بارہ ہزار کاپیاں اب تک پورے ملک میں فروخت ہوچکی ہیں- لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے بہت کم کاپیاں اسٹاک میں موجودہیں۔ وائس آف کے پی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اب بھی کئی غیر مطبوعہ تصانیف موجود ہیں جن میں چار اردو اور ایک یوسفزئی اور سوات کی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں شامل ہیں، جو دو سال میں لکھی گئیں۔
موصوف نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں “میں نوجوانوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ کتب بینی کا رواج عام کریں-جسکی وجہ سے ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ مستقبل میں ڈٹ کر مشکلات کا مقابلہ کرسکیں۔”باغی کا ماننا ہے کہ دنیا میں علم اور محبت پھیلانے کے لئے کتابوں سے محبت ضروری ہے- اس عظیم اور معمر مصنف کے ارادے اب بھی ایک نوجوان کی طرح پختہ ہیں جس کا اندازہ ان کے اس الفاظ سے لگاسکتے ہیں ” میں نے اپنی زندگی اس فن کے لئے وقف کی ہے، جب تک میری رگوں میں خون دوڑتی رہے گی میں لکھتا رہوں گا۔”