سال 2001 کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایک درجن سے زائد فوجی آپریشن کیے گئے ہیں تاہم آپریشن ردالفساد اس حوالے سے اہم اور منفرد رہا کہ اس کا مینڈیٹ اور فریم ورک محض فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کے مقاصد کافی وسیع تھے جن میں امن کے قیام کے علاوہ شدت پسندی کا خاتمہ، ذہن سازی اور تعمیر نو جیسے عوامل بھی شامل تھے۔
22 فروری 2017 کو شروع ہونے والے آپریشن ردالفساد کی بنیاد نیشنل ایکشن پلان کے نکات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر رکھی گئی تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ اس آپریشن نے جہاں ریاستی عملداری اور امن کی بحالی کا راستہ ہموار کیا وہاں مختلف دوسرے اقدامات کے باعث پاکستان سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے مکمل خاتمے کی عملی کوششیں بھی کی گئی جس کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔
سیکورٹی پائنٹ آف ویو سے قبائلی اضلاع سمیت پورے ملک سے اُن محفوظ ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ کیا گیا جہاں حملہ آور گروپ اکٹھے ہوتے تھے یا پناہ لیا کرتے تھے ۔ہزاروں کو مارا گیا اور سینکڑوں یا تو گرفتار کیے گئے یا وہ سرحد پار بھاگ نکلے۔ قبائلی اضلاع میں نہ صرف امن قائم کیا گیا اور سول اداروں کو مضبوط اور فعال بنایا گیا بلکہ ان کی مین اسٹریمنگ کرکے وہاں کے عوام کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی گئی اور اس اہم علاقے کو پختونخوا میں ضم کیا گیا ۔
کراس بارڈر ٹیررازم کے لیے ہمہ جھت اقدامات کئے گئے جن میں طویل ترین سرحدی باڑ کی تعمیر بھی شامل ہے جو کہ اب 95 فیصد مکمل ہو چکی ہیں جبکہ نیم فوجی اداروں کو جدید تربیت دے کر فعال بنایا گیا ۔ سابقہ فاٹا پر اربوں روپے خرچ کیے گئے اور اس کی تعمیر نو اور بحالی پر توجہ دی گئی۔
فوجی عدالتوں کے ذریعے ہارڈ کور دہشتگردوں کو سخت ترین سزائیں دی گئیں اور اُن جنگجوؤں کی ذہنی بحالی کی کوششیں کی گئیں جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
افغانستان کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے راستوں سے تقریباً نصف درجن مقامات پر آمدورفت اور تجارت کے لیے رسائی دی گئی تاہم اس تمام پراسس میں سینکڑوں نوجوانوں اور درجنوں آفسران نے بہت قربانیاں دیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس آپریشن کو کامیاب ترین کاروائیوں اور اقدامات میں سرفہرست رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ہمہ جھت مقاصد کا حامل آپریشن تھا ۔ اب جبکہ افغانستان کے بدلتے حالات، بعض عالمی قوتوں اور دیگر عوامل کے باعث پاکستان کو متعدد نئے چیلنجز درپیش ہیں اس لئے اعلےٰ عسکری قیادت بدلتے صورتحال پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حالات کو پرامن رکھ کر قومی سلامتی اور مستقل امن کی بحالی کو یقینی بنایا جائے اس لیے مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔