افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ پاکستان کے خلاف زیر استعمال

عقیل یوسفزئی

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کی جانب سے افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ اور دیگر متعلقہ سامان نہ صرف یہ کہ شدت پسندوں کی جانب سے
پاکستان کے خلاف استعمال ہورہا ہے بلکہ یہ افغانستان کے مختلف شہروں میں اسلحہ کی دکانوں میں کھلے عام خرید و فروخت کے لیے بھی دستیاب ہیں. اس صورتحال نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ افغان حکومت کو اس تشویش سے آگاہ کیا جائے۔

سینئر صحافی سید وقاص شاہ کے مطابق ان ہتھیاروں کی لاگت ڈیڑھ سے دو ارب ڈالرز تک بنتی ہے اور اس کی تعداد یا مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس کے ذریعے کوئی بھی گوریلا گروپ تقریباً 15 برسوں تک گوریلا جنگ لڑسکتا ہے. وقاص شاہ کے مطابق جدید اسلحے کے علاوہ متعدد دیگر جدید جنگی آلات بھی ٹی ٹی پی کے زیرِ استعمال ہیں جن کے ذریعے ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے آرہے ہیں اور ان حملوں میں افغانستان پر امارت اسلامیہ کے قبضے کے بعد اضافہ ہوا ہے۔

سیکیورٹی حکام اور عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ اسلحہ نہ صرف یہ کہ ٹی ٹی پی اور دیگر کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے بلکہ افغانستان کے متعدد شہروں اور سرحدی علاقوں میں یہ جدید ہتھیار اور دوسرا جنگی سامان اسلحہ ڈیلرز کے ذریعے عام خرید و فروخت کے لئے بھی دستیاب ہیں اور دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ طالبان وغیرہ کے یہ ایک بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے. ان کے مطابق اگر یہ کہا جائے کہ طالبان اب اسلحہ ڈیلرز بھی بن گئے ہیں تو بے جا نہیں ہوگا. رپورٹس کے مطابق ان جنگی سازو سامان کی خرید و فروخت امریکی اور افغان کرنسیوں کی صورت میں جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں کی خرید و فروخت جاری ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان کے متعلقہ حکام اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا چھوڑا ہوا اسلحہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف مسلسل استعمال ہورہا ہے اور اس کی توڑ کے لیے نہ صرف یہ کہ پاکستانی پیراملٹری فورسز کو درکار سہولیات دی گئی ہیں بلکہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس لہر کا راستہ روکنے کے لیے دیگر ضروری اقدامات بھی کئے جائیں.
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کی ان اسلحہ مارکیٹوں میں امریکی ہتھیاروں اور دیگر جنگی آلات کے علاوہ چین، برطانیہ، آسٹریا اور متعدد دوسرے ممالک کے جدید ہتھیار اور سامان بھی موجود ہیں اور اس “سہولت” سے داعش سمیت دوسری شدت پسند قوتیں بھی فائدہ اٹھارہی ہیں جس کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ صورت حال نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک بڑے سیکیورٹی چیلنج بن سکتی ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف اب تک جتنی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اکثر میں یہ جدید ہتھیار استعمال ہوتے رہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں میں جدید ترین بندوقوں (گنز) کے علاوہ راکٹ لانچرز، میزائل، نایٹ وژن ہتھیار اور دوربین وغیرہ بھی شامل ہیں اور ٹی ٹی پی یہ چیزیں پاکستان کے خلاف حملوں میں استعمال کرتی آرہی ہے۔

دوسری جانب اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہی ہیں کہ اگست 2022 کے دوران کابل قبضہ کے دوران افغان فورسز اور انٹیلی جنس سے وابستہ جو لوگ اور گروپ ایران کی جانب نکل گئے تھے ان کے پاس بھی مغربی اسلحے کی بڑی مقدار موجود تھیں. ایران نے بوجوہ ان لوگوں کو پناہ دی جس کے بعد پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ ایران سے متصل صوبہ بلوچستان میں ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند گروپوں کے حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ واقع ہوگیا۔

اس صورتحال نے واقعتاً پاکستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے مزید مشکلات پیدا کیں اور شاید اسی کا ردعمل رہا کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان سال 2023 کے دوران دوطرفہ تعلقات اور معاملات میں سردمہری اور کشیدگی دیکھنے کو ملتی رہی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket