اس بحث سے قطع نظر کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے دوسروں کے علاوہ ہماری اسٹبلشمنٹ اور عالمی طاقتوں نے کتنی توقعات وابستہ کی تھیں اور اس کے بدلے ان قوتوں نے کتنی مخالفت اٹھائی تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب عمران خان نے اپنے جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث سب کو نہ صرف مایوس کیا ہے بلکہ وہ غلطیوں پر غلطیاں کرکے جہاں قومی سلامتی سے متعلق بعض حساس معاملات کے بارے میں غلط بیانی کر رہے ہیں وہاں وہ اداروں اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں بڑھانے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہیں جو کہ قابل افسوس عمل ہے۔
گزشتہ روز ایک بار پھر ایک انتہائی اہم ریاستی فورم یعنی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے نمائندہ اجلاس میں متنازعہ مراسلے کے بارے میں اعلامیہ جاری کیا گیا کہ اسد مجید
کی معلومات اور مراسلہ کی مندرجات کے نتیجے میں عدم اعتماد کی تحریک کے دوران امریکی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا تاہم شاہ محمود قریشی اور بعض دیگر پی ٹی آئی عہدیداران نے حسب معمول “میں نہ مانوں” کی رٹ لگا کر اتنے اہم اجلاس کے متفقہ فیصلے اور اعلامیہ پر پھر سے سوالات اٹھائے اور ایک عدالتی کمیشن کا غیر ضروری مطالبہ کر ڈالا حالانکہ اعلیٰ عدلیہ ان حضرات اور ان کی پارٹی کی بدترین تنقید کی زد میں ہے اور یہ لوگ عدلیہ کو بھی اپنے بیان کردہ سازش کا حصہ قرار دیتے آرہے ہیں۔ لگ تو یہ رہا ہے کہ یا تو عمران خان کو اس رویے کے نتائج اور نقصانات کا احساس نہیں ہو رہا یا وہ جان بوجھ کر پاکستان کے اداروں اور عوام سے اس احسان کا بدلہ لے کر ایک بدترین مثال قائم کرنا چاہتے ہیں جس احسان کے نتیجے میں ان کو وزیراعظم بنایا گیا تھا۔
سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنانے والی تحریک انصاف کو شاید بھارت اور بعض دیگر ان ممالک کے پروپیگنڈے کا علم نہیں ہے جو کہ موصوف کے الزامات کو بنیاد بنا کر پاکستان کے اداروں خصوصاً فوج اور سپریم کورٹ کے خلاف مسلسل کیا جا رہا ہے۔ ان کو شاید اس بات کا احساس بھی نہیں ہے کہ ان کے نام و نہاد بیانیے نے نہ صرف قوم کو تقسیم کر دیا ہے بلکہ ہر گھر ہر خاندان کے اندر ان کے اس خطرناک رویے نے مخالفت اور جھگڑوں کی آگ لگا دی ہے۔
اس بات کی کوئی تُک نہیں بنتی کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیہ کو بھی ایک ایسا شخص اور طبقہ مسترد کر دے جس کی زندگی تضادات کا مجموعہ ہے اور جن کے رویے سے مخالفین کے علاوہ اس کے اپنے بھی نالاں ہو۔ عمران خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ محض جلسوں کی رونق بڑھانے اور جوشیلے تقریروں سے سیاست نہیں کی جاتی اس کے لیے وژن، برداشت، اعتماد اور سب سے بڑھ کر رازداری کی صلاحیت درکار ہوتی ہے جو کہ ہمیں نظر نہیں آرہی۔ حالیہ اعلامیہ اور سپریم کورٹ فوج سے متعلق تحریک انصاف کے جاری رویے کو مزید برداشت کرنا شاید اب ممکن نہیں رہا کیونکہ موصوف اب ملکی مفادات اور ساکھ سے کھیلنے لگے ہیں۔