حملوں کی تازہ لہر، تیسرے ہاتھ کی اطلاعات اور پاک افغان تعلقات
عقیل یوسفزئی
افغانستان میں ہفتہ رفتہ کے دوران چار بڑے واقعات ہوئے. پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر اپنی ٹیم کے ہمراہ کابل کے پہلے رسمی دورہ پر گئیں تو متعلقہ افغان حکام نے ان کا شاندار استقبال کیا جس پر بہت سے حلقوں نے حقوق نسواں کی آڑ میں غیر ضروری تنقید کی اور بعض نے اس اہم ترین دورہ کو مذاق بناکر حسب معمول طنزیہ تبصرے کئیے.
اس سے اگلے روز پاکستانی سفارتخانے کو اس وقت فائرنگ کے ایک حملے کا نشانہ بنایا گیا جب پاکستان کے ناظم الامور اپنے گارڈ کے ساتھ سفارت خانے کے اندر واک کررہے تھے. حملے میں گارڈ شدید زخمی ہو گئے تاہم اگر خدانخواستہ ناظم الامور کو جانی نقصان پہنچ جاتا تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان شدید نوعیت کی کشیدگی پیدا ہوجاتی اور اس کا خمیازہ دونوں ممالک کے عام شہریوں خصوصاً افغانوں کو بھگتنا پڑتا۔ اسی روز حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کے گھر کو کابل ہی میں خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس سے ان کے دو گارڈز جاں بحق ہوگئے جبکہ اس سے ایک روز قبل سمنگان میں ایک مدرسہ پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 20 افراد کو شہید کر دیا گیا جن میں اکثریت بچوں کی تھی.
عین اسی نوعیت کے حملے پاکستان کے دو سرحدی صوبوں پختون خوا اور بلوچستان میں کرائے گئے. کوئٹہ میں ایف سی کی گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا جس سے 5 افراد شہید ہوئے جبکہ اکوڑہ خٹک میں پولیس گاڑی کو نشانہ بنانے کے باعث 3 پولیس اہلکار شہید ہو گئے. اس سے قبل لکی مروت، مردان، وزیرستان اور بعض دیگر علاقوں میں بھی پولیس، ایلیٹ فورس اور قبائلی عمائدین کو نشانہ بنایا جاتا رہا.
ایک رپورٹ کے مطابق نومبر 2022 کے دوران پختون خوا کے 12 جبکہ بلوچستان کے 4 اضلاع میں 59 حملے کیے گئے ہیں اور ان سب کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی. یکم اور اس کے بعد 16 مئی کو ٹی ٹی پی نے مذاکراتی عمل کے دوران سیز فایر کے جو اعلانات کئے تھے ان کے باوجود نومبر کا ڈیٹا یہ ثابت کرتا ہے کہ حملے نہ صرف جاری رکھے گئے بلکہ ان میں اضافہ کیا گیا.
تحریک طالبان پاکستان نے 29 نومبر کو ایک ایسے موقع پر سیز فایر کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو پاکستان کے اندر ہر جگہ حملوں کا حکم دیا جبکہ اس روز پاکستان میں نئے آرمی چیف نے کمان سنبھالی تھی.
ان تمام معاملات کو ایک مربوط حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کے پیچھے بہت گہری سازش اور لمبی پلاننگ نظر آرہی ہے. کوئی تیسرا ہاتھ ایسا ضرور ہے جو کہ سرحد کے دونوں اطراف میں ایک خطرناک گیم کھیل رہا ہے. اس گیم کے بظاہر دو بڑے مقاصد نظر آرہے ہیں. ایک تو یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو کشیدگی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی پشتون بیلٹ کو پھر سے میدان جنگ بنایا جائے. اس لئے ہماری پالیسی سازوں کو اس نئی گیم کے پس منظر میں جاکر اپنی صف بندی کرنا ہوگی.
سال 2021 کے دوران پاکستان میں 87 حملے کئے گئے تھے جن کے نتیجے میں 160 افراد جاں بحق ہوگئے تھے. اگست 2021 اور اگست 2022 کے درمیان پاکستان میں 251 حملے کئے گئے جن میں صرف خیبر پختون خوا پر کرائے گئے حملوں کی تعداد 160 رہی. اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سے افغانستان میں رجیم چینج ہوئی حملوں کی تعداد اس کے باوجود بڑھتی گئی کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اکتوبر 2021 میں ایک انٹرویو کے دوران تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا باضابطہ اعلان کردیا تھا.
8 اگست 2022 کو مٹہ سوات میں ٹی ٹی پی کی ہونیوالی کارروائی کے بعد اگر چہ سوات کے حالات پر قابو پایا گیا تاہم حملوں کا سلسلہ پورے صوبے تک پھیلتا گیا. نومبر میں اس میں مزید اضافہ ریکارڈ ہوا. مثال کے طور پر 11 نومبر کو وانا وزیرستان میں حملہ کیا گیا 16 نومبر کو لکی مروت اور اس کے دو دن بعد 18 نومبر کو جنوبی وزیرستان کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا.
سال 2022 کے دوران مختلف جھڑپوں میں پاک فوج کے تقریباً 75 نوجوانوں اور افسران نے جام شہادت نوش کی. یہی تعداد پولیس کی بھی بنتی دکھائی دے رہی ہے. یہ اس جانب واضح اشارہ ہے کہ فورسز ہی اب کی بار حملہ آور قوتوں کے نشانے پر ہیں.
اس صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی اور پختون خوا کی صوبائی حکومتوں کے درمیان قومی سلامتی کو لاحق اس مسئلے پر بھی کوئی رابطہ کاری نہیں ہے بلکہ بلیم گیم کا سہارا لیکر اس معاملے پرسیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے.
ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا جائے اور صوبائی حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے تاکہ دہشت گردی کی لہر پر قابو پایا جاسکے. اس کے علاوہ اگر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اب بھی کسی سطح پر مذاکرات یا رابطہ کاری موجود ہے تو نئے منظر نامہ کے تناظر میں اس پر بھی نظر ثانی کی جائے اور افغانستان کی حکومت کو بھی اس کی کمٹمنٹ اور ذمہ داریوں کی یاددہانی کرادی جائے.