حملوں کی تعداد میں اضافہ اور حکومتی ذمہ داریاں

 گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے بعض علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں فورسز اور بعض اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔  ریاستی اداروں کا دعوی ٰہے کہ مجموعی طور پر حالات قابو میں ہے اور ماضی جیسی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔  بلوچستان میں فورسز پر تین حملے جبکہ خیبرپختونخوا میں چار حملے کرائے گئے جس کے نتیجے میں تقریباً 20 افراد شہید ہوگئے جبکہ فورسز نے بھی متعدد کارروائیاں کرکے کامیابی حاصل کیں۔

Preist Patrick and Siraj

Pastor Patrick and Pastor William Siraj.

 دو روز قبل پشاور کے دو پادریوں پیٹرک اور ولیم سراج کو رِنگ روڈ پر تھانہ چمکنی کے علاقے میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پادری ویلیم سراج جاں بحق جبکہ پیٹرک شدید زخمی ہوئے۔  اس واقعے نے شہر کے ماحول کو افسردہ کر دیا اور یہ سوال سر اٹھانے لگا کہ کہیں پشاور اور بعض دیگر علاقوں میں ماضی کی طرح پھر سے منظم دہشت گردی کا سلسلہ شروع نہیں ہو رہا۔  اگرچہ رنگ روڈ پشاور کئی مہینوں سے مسلسل ڈاکہ زنی ،  چوری اور دیگر جرائم کا گڑھ بنا ہوا ہے اور پولیس سنجیدگی سے کسی واقعے کا نوٹس نہیں لے رہی تاہم یہ بظاہر ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ لگ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں اس واقعے پر ملکی اور عالمی میڈیا کا سخت ایکشن سامنے آیا وہاں ونثاء نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا جبکہ حکومتی وزراء اور اعلےٰ افسران نے ورثاء کے گھر جا کر متاثرین سے اظہار یکجہتی کرکے ان کو یقین دلایا کہ قاتلوں کی گرفتاری کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔

 اسی دوران ایک اعلےٰ پولیس آفیسر نے بیان میں کہا کہ مذکورہ واقعہ میں داعش ملوث ہوسکتی ہے جس کے باعث اقلیتوں کے علاوہ سیاسی اور سماج حلقوں میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اہم شخصیات پر ہونے والے ایسے حملوں میں بسا اوقات ذاتی دشمنی اور بعض دیگر عوامل کا ہاتھ بھی ہوتا ہے تاہم بعض افسران اور حلقے تحقیقات سے قبل اس قسم کے بیانات دے کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے خوف پھیلانے کا راستہ ہموار کر دیتے ہیں ۔

واقعہ پشاور کی ہر سطح پر مذمت کی گئی کیونکہ اس شہر اور صوبے میں مذہبی ہم آہنگی ہر دور میں عوامی سطح پر مثالی رہی ہے اور اقلیتوں کو انتہائی عزت ، احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے ۔

 ایک اور واقعے میں ہنگو میں ٹریفک پولیس کے دو اہلکاروں کو شہید کیا گیا جس کا بھی سخت نوٹس لیا گیا۔ پولیس پر ہونے والے حملوں کی تعداد اور شرح کافی خطرناک ہے اور گزشتہ دو تین ماہ کے دوران اس فورس پر صوبے کے مختلف علاقوں میں تقریبا 20 حملے کیے جا چکے ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ صوبے میں امن وامان سے متعلق کیے گئے دعوے بد ترین جرائم کے پے در پے واقعات سے غلط ثابت ہو رہے  ہیں جس کا اعلےٰ سطح نوٹس لینا چاہیے کیونکہ عام لوگ بدترین خوف سے دوچار ہیں۔

 افغانستان اور خطے کے بدلتے حالات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس پس منظر میں پراکسیز کا پھر سے متحرک ہونا حسبِ توقع کوئی نئی بات نہیں تاہم عملی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket