حملوں کی نئ لہر اور فورسز کا جوابی ردعمل
عقیل یوسفزئی
پشاور سمیت پختون خوا کے متعدد دیگر علاقوں کو شدت پسندوں کے مسلسل حملوں کا سامنا ہے تاہم دوسری جانب فورسز کی کارروائیاں بھی کسی وقفے کے بغیر جاری ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ فورسز نہ صرف مسلسل قربانیاں دے رہی ہیں بلکہ انہوں نے متعدد بڑے حملوں کو بھی نشانہ بنایا.
منگل کی شام کو ضلع خیبر کے علاقے علی مسجد میں 2 خودکش حملہ آوروں نے ایک مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنانے کی کوشش کی جس کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس وہاں پہنچ گئی. ایڈیشنل ایس ایچ او نے حملہ آوروں کو گھیرے میں لیا تو ایک نے خود کو اڑادیا جبکہ دوسرے نے فرار ہونے کی کوشش کی جس کو بعد میں فورسز نے گرفتار کرلیا. اس واقعے میں مذکورہ پولیس افسر شہید ہوگیا.
خدشہ اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں حملہ آور پشاور یا کسی سرکاری عمارت کو نشانہ بنانے کے ٹاسک پر تھے تاہم پولیس نے قربانی دیکر ان کی پلاننگ کو ناکام بنایا.
سی ٹی ڈی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال خیبر پختون خوا کو 665 حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں 15 خودکش اور 16 راکٹ حملے بھی شامل ہیں.
دوسری طرف اس برس مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں 139 شدت پسندوں یا حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 432 کو گرفتار کیا گیا. یہ اس جانب اشارہ ہے کہ فورسز اس کے باوجود کویک رسپانس دے رہی ہیں کہ اب کے بار حملوں کا مین ٹارگٹ فورسز خصوصاً پولیس فورس ہی ہے.
حملوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ ماہرین دہشتگردی کے خلاف ریاست کی دوٹوک اور واضح پالیسی قرار دیتے ہیں جبکہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے معاملے پر افغان حکومت پر مسلسل دباؤ بھی بڑھا رہا ہے.