دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نیا پڑاو
عقیل یوسفزئی
قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاسوں میں اتفاق رائے سے یہ طے پایا گیا کہ دہشت گردی کی نیء لہر پر قابو پانے کیلئے نہ صرف یہ کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیا جائے گا اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے گا بلکہ متاثرہ علاقوں میں فوجی کارروائیاں بھی کی جائے گی. یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے خدشات اور مطالبات سے پھر سے آگاہ کیا جائے گا اور اگر مثبت نتائج سامنے نہیں آئے تو ضرورت پڑنے پر سرحد پار کارروائی کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
دوسری طرف امریکہ نے پاکستان کو سیکورٹی پارٹنر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر دہشتگردی بڑھتی جا رہی ہے اور افغانستان کی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہورہی ہے جس کے تدارک کے لئے پاکستان کے پاس سرحد پار کارروائی سمیت تمام آپشنز موجود ہیں اور امریکہ اس تمام صورتحال کے دوران پاکستان اور دہشت گردی سے متاثرہ پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا. امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرایس نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان کے عوام نے بہت نقصان اٹھایا ہے جبکہ موجودہ افغان حکومت دوحہ معاہدے کے اس وعدے کی تکمیل میں ناکام ہوگئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ان کے مطابق پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان، داعش، القاعدہ اور ہر حملہ آور گروپ کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے گزشتہ روز پھر سے تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں تو ان کے ساتھ بات چیت کی جاسکتی ہے تاہم جس روز وہ یہ پیشکش کررہے تھے اس دن ٹی ٹی پی نے ایک بیان جاری کیا جس میں دوسری دھمکیوں کے علاوہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف مجوزہ کارروائیوں کا اعلان بھی شامل تھا جس پر تجزیہ کاروں اور عوامی حلقوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا کیونکہ اب تک کے حملوں میں عوامی یا سیاسی جماعتوں کی بجائے فورسز کو نشانہ بنانے کی پالیسی چلی آرہی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مد میں تحریک انصاف کو باہر رکھا گیا ہے حالانکہ صوبہ پختون خوا میں اس پارٹی کی حکومت ہے اور اس حکومت ہی کی پولیس فورس کے 120 اہلکاروں اور افسران کو سال 2022 کے دوران شہید کیا جاچکا ہے. پیلپز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اگر نشانہ بنانے کی وجہ ان کا اقتدار میں رہنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف حکومت نہیں کررہی؟
اس فرق یا رعایت کو طالبان سے متعلق تحریک انصاف یا عمران خان کا پرو طالبان پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جائے یا کچھ اور اس کا بعد میں پتہ چلے گا تاہم اس کا نوٹس لے لیا گیا ہے.
دوسری طرف پختون خوا کے وزیر اعلیٰ نے سوات میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت قبائلی علاقوں میں پولیس اسٹیشنز اور دیگر درکار سہولیات کی فراہمی کے علاوہ عوامی منصوبوں کے لئے فنڈز جاری نہیں کررہی جس کے باعث امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی ہے. تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ صوبائی حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کردی ہے.
دیر آید درست آید کے مصداق اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر دہشتگردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے تمام پارٹیاں ایک پیج پر آجائیں اور اپنی فورسز کی پشت پر کھڑی ہوجائے ورنہ حالات اور چیلنجز میں مذید ابتری واقع ہوگی.
سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ریاست کو مضبوط بنانے کی پالیسی اختیار کی جائے اور درپیش چیلنجز سے قومی اتفاق رائے کے زریعےنمٹا جائے.