15 اگست 2021 کو جب طالبان نے کسی مزاحمت کے بغیر کابل میں داخل ہوکر پورے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا تو یہ سب کے لیے ایک حیران کن صورتحال تھی کیونکہ اشرف غنی اور ان کے ساتھی بھاگ نکلے تھے اور جن سکیورٹی فورسز پر امریکہ اور اتحادیوں نے اربوں کھربوں ڈالرز خرچ کیے تھے وہ گھنٹوں کے اندر تحلیل ہو گئی تھیں۔ ہزاروں قیدی انتظامیہ نہ ہونے کے باعث جیلوں سے نکل آئے جن میں افغان طالبان کے علاوہ ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش کے لوگ اور کمانڈر بھی شامل تھے۔
کہا جا رہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے تقریباً چھ ہزار افراد افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کے دور حکومت میں قیام پذیر تھے جن میں سے بعض نے بعد میں داعش کو بھی جوائن کیا۔ ٹی ٹی پی اور متعلقہ پاکستانی حکام کے درمیان جون 2021 کے دوران افغان طالبان کی خواہش پر ایک مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا تاہم 15 اگست کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ اب نہ صرف پاکستان پر حملے ختم یا کم ہو جائیں گے بلکہ افغان حکومت کی خواہش پر ہونے والے مذاکرات بھی کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گے مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا بلکہ بلکہ جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینوں میں فورسز پر حملوں کی تعداد بڑھتی گئی جس پر پاکستان نے نئی افغان حکومت سے اظہار تشویش اور احتجاج بھی کیا۔ افغان طالبان نے ردعمل میں موقف اپنایا کہ وہ کسی کو حملوں کے لئے افغان سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم یہ بھی بتایا کہ چونکہ ان کو خود داعش سے خطرہ ہے اس لیے اگر وہ ٹی ٹی پی پر زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں تو خدشہ کہ بہت سے سخت گیر افراد داعش میں شامل ہو جائیں گے جس سے دونوں ممالک کو درپیش خطرات بڑھ جائیں گے۔
دوسری طرف پاکستان نے نومبر سے لے کر فروری 2022 کے درمیان نئی صف بندی کر کے حملہ آوروں کا راستہ روکنے پر کامیاب توجہ دیں جس کے باعث حملوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور مذاکرات کے بارے میں بھی پاکستان کا رویہ سخت ہونے لگا اگرچہ بیک ڈور رابطوں کی ذمہ داری بعض افغان حکام کے ذریعے جاری رہی تاہم پہلی والی صورتحال اور گرم جوشی نہیں رہی اور کہا گیا کہ اب کے بعد یہ سلسلہ پاکستانی ریاست کی شرائط ہی کی بنیاد پر آگے بڑھے گا۔
نئی افغان حکومت کو چونکہ اپنے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے پاکستان اس پر دباؤ ڈالنے سے گریزاں ہے اور اپنے طور پر بعض سیکورٹی اقدامات اور بعض جرگوں کے ذریعے عناصر پر توجہ دے رہا ہے جو کہ ٹی ٹی پی سے الگ ہوکر سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف یوکرین پر روسی حملے کے معاملے پر امریکہ اور یورپی یونین کو پاکستان کا غیر جانبدارانہ کردار پسند نہیں آیا اس لئے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک داعش کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کو امریکی ادارے فنڈنگ کرتے آرہے ہیں اور داعش نے 4 مارچ 2022 کو پشاور کی ایک شیعہ مسجد پر حملہ کر کے 70 افراد کو شہید کرنے کے علاوہ متعدد دوسرے مواقع پر بھی پاکستان کو نشانہ بنایا۔
سیکورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان 15 اگست کے بعد کافی محفوظ ہو چکا ہے اور سیکیورٹی چیلنجز میں کمی واقع ہو گئی ہے تاہم عالمی اور علاقائی پراکسیز کی حتیٰ المقدور کوشش ہو گی کہ وہ افغانستان کی اپنی ناکامی اور سبکی کا بدلہ پاکستان سے لیں۔
مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستانی اداروں کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں الرٹ رہنے کی اب بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ قبائلی علاقہ جات کی تعمیر نو ، بحالی اور ترقی پر غیر معمولی توجہ دے کر وہاں کے عوام کو ساتھ لے کر امن کے مستقبل قیام کو ممکن بنایا جائے۔ ان کے مطابق ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ اور داعش کے مجوزہ پھیلاؤ سے پیدا شدہ صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بعض عالمی طاقتیں بھی بوجوہ خاموش نہیں رہیں گی۔
صحافی فخر کاکاخیل کے مطابق ٹیرارزم اب علاقائی یا مقامی مسئلہ نہیں رہا ہے اس کی جڑیں بہت گہری اور نئے حالات میں اس کی “مارکیٹ” بہت وسیع ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ افغانستان اور یوکراین وغیرہ کے تناظر میں پاکستان کے لیے نئے مسائل اور چیلنجز پیدا کیے جائیں۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ان کے بقول لازمی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کا دائرہ انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انسداد شدت پسندی تک پھیلایا جائے اور سیاسی، سماجی معاشی اصلاحات کیے جائیں۔
تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر)محمود شاہ کے مطابق ٹی ٹی پی کی صلاحیت اور قوت عملاً ختم ہوگئی ہے اسلئے ان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت بھی نہیں جبکہ افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کے قیام سے ان ممالک کا اثر رسوخ بھی نہ ہونے کی برابر ہے جو کہ ٹی ٹی پی، بلوچ علیحدگی پسندوں اور ایسے دیگر کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے آرہے تھے۔ ان کے مطابق داعش بھی کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف یہ کہ حالات بہتر ہوجائیں گے بلکہ پاکستان خطے کی رہنمائی کرتا دکھائی دے گا اور شورش زدہ علاقوں کی مین اسٹریمنگ کے نتیجے میں یہ خطہ امن اور ترقی کے نئے دور میں داخل ہو گا۔