16 دسمبر 2014 کی تلخ یادیں، نیشنل ایکشن پلان اور موجودہ صورتحال
عقیل یوسفزئی
پاکستان تو کیا دنیا بھر میں 16 دسمبر کا دن آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے باعث لمبی مدت تک یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس روز 140 سے ذائد طلباء، ٹیچرز اور دیگر سٹاف ممبرز کو انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کیا گیا تھا. کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ معصوم بچوں کو اس طریقے سے نشانہ بنایا جائے گا. شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ 8 سال گزرنے کے باوجود اس سانحہ کی تلخ یادیں اور زخم اب بھی تازہ ہیں.
اگرچہ موقع پر موجود حملہ آوروں اور بعد میں ان کے منصوبہ سازوں کو لقمہ اجل بنایا گیا اور اس واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی منظوری عمل میں لائی گئی تاہم واقعے کی شدت اور تکلیف کم نہیں ہوئی. نیشنل ایکشن پلان کے تحت درجن بھر فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا، ہزاروں حملہ آور مارے گئے تو ہزاروں گرفتار کیے گئے جبکہ واقعہ کی روک تھام میں ناکامی پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی گئی اور رپورٹ پبلک کی گئی اس کے باوجود جب بھی یہ دن آتا ہے عوام کی تلخ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں.
ناین الیون کے بعد پاکستان کو تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑا. 2002 کو ہزاروں افراد سرحد پار کر کے قبائلی علاقوں میں گھس آئے جن کے خلاف المیزان سمیت متعدد بڑے آپریشن کئے گئے.
دوسری لہر اس وقت اٹھی جب 2007 میں تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی اور اس نے سینکڑوں حملے کئے جس سے نمٹنے کیلئے آپریشن راہ راست اور ردالفساد جیسی فوجی کارروائیاں کی گئیں.
تیسری لہر کا آغاز اگست 2021 کے بعد افغانستان میں طالبان کا کنٹرول سنبھالنے اور داعش کی سرگرمیوں کے بعد شروع ہوئی جو کہ اب تک جاری ہے.
دستیاب ڈیٹا کے مطابق گزشتہ ایک سال کے عرصے میں پاکستان کو جہاں 260 بار حملوں کا نشانہ بنایا گیا وہاں تقریباً 70 بار افغانستان سے ہمارے سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا. رواں سال تقریباً 80 فوجی جوانوں سمیت پختون خوا پولیس کے 115 اہلکاروں کو شہید کر دیا گیا جبکہ صرف شمالی وزیرستان کو 8 بار خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا.
ہفتہ رفتہ کے دوران 2 بار چمن کراسنگ پوائنٹ اور اس کے نواحی علاقوں کو افغانستان نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تقریباً 10 شہری شہید اور 2 درجن زخمی ہوگئے ہیں.
اس برس داعش نے بھی پاکستان میں متعدد حملے کئے جبکہ فورسز نے بھی درجنوں کامیاب آپریشن کرکے جہاں سینکڑوں حملہ آوروں کو مارا وہاں متعدد حملے ناکام بھی بنائے.
تلخ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر فوج نے تو عملدرآمد کیا تاہم سیاسی اور عوامی کردار ادا کرنے سے متعلق نکات پر اس طرح عمل نہیں ہوا جسکی ضرورت تھی.
موجودہ لہر کو نظر انداز اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ اب حملوں کا معاملہ صرف ٹی ٹی پی تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ داعش، القاعدہ اور عالمی پراکسیز سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے. دوسری طرف پاکستان کو اندرونی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا بھی سامنا ہے.
اس تمام صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات کو قومی چیلنج اور مسئلہ سمجھ کر نمٹایا جائے اور اس بنیادی مسئلہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے. ایسا اس لیے لازمی ہے کہ خدانخواستہ پھر سے ہمیں 16 دسمبر 2014 جیسے کسی سانحے سے دوچار نہ ہونا پڑے اور ہماری نئی نسل کو یہ تسلی اور اطمینان ہو کہ ہم ان کے تحفظ کا نہ صرف یہ کہ ادراک اور احساس رکھتے ہیں بلکہ چیلنجز سے نکلنے کی صلاحیت، طاقت بھی رکھتے ہیں.