سول اور عسکری قیادت کا دورہ وزیرستان اور قبائلی علاقوں کا مستقبل

 اس بات میں دو آراء  ہیں ہی نہیں کہ قبائلی اضلاع اور خیبرپختونخوا کے عوام نے دو تین دہائیوں تک خطے میں لڑی جانے والی جنگ اور پراکسیز کے دوران بہت قربانیاں دی ہیں اور ان کو ان قربانیوں کا امن، تعمیر نو اور ترقی کی صورت میں صلہ ملنا چاہیے۔  اس خطے کے موجودہ حالات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اور مزید بہتری لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم افغانستان کے مستقل امن اور استحکام سے اس علاقے کا امن بھی مشروط ہے اور گزشتہ چند روز کے دوران وہاں جس تعداد میں حملے ہو رہے ہیں اور پاک افغان تعلقات میں جو تناؤ  آگیا ہے اس پس منظر میں ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔

 نئی وفاقی کابینہ کی تشکیل کے چند روز بعد وزیراعظم شہباز شریف،  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجواہ، دیگر اعلیٰ عسکری حکام اور متعلقہ وزراء نے شمالی وزیرستان کا دورہ کرکے ریاستی سطح پر بہت اچھا پیغام دیا کہ حکومت کو اس جنگ زدہ علاقے کی قربانیوں، مسائل اور مطالبات کا احساس ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اعلیٰ سطحی حکومتی ٹیم کو وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں کے امن و امان کی صورتحال، پاک افغان بارڈر اور علاقے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جبکہ وزیر اعظم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں وزیرستان کے عوام اور قربانی دینے والی فورسز کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بعض اہم اعلانات بھی کیے جن میں میڈیکل کالج کا قیام اور موبائل ہسپتال سرفہرست ہیں۔

 اس اہم اور بروقت دورے کے دوران مذکورہ ریاستی شخصیات نے متعلقہ مقامی افسران کے علاوہ علاقے کے عوامی نمائندوں اور مشران سے بھی تبادلہ خیال کیا اور ان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت امن کے قیام کے علاوہ تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں بھی غیرمعمولی دلچسپی لے کر درکار اقدامات کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔

 اس سے قبل صوبائی حکومت اور متعلقہ سیکیورٹی اداروں نے پورے قبائلی علاقے میں جہاں متعدد ایونٹس کا انعقاد کیا وہاں عوامی نمائندوں،  افسران اور عوام کے درمیان رابطہ کاری اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک مشاورتی عمل کی ایک کامیاب پریکٹس کی جس کے دوران عوام کو ان ترجیحات اور منصوبوں کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا جو کہ قبائلی علاقوں میں زیر تکمیل ہیں یا مکمل کیے جا چکے ہیں۔

 دستیاب معلومات اور ڈیٹا کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران سات  قبائلی اضلاع میں بحالی کے کاموں اور ترقیاتی منصوبوں پر 50 ارب سے زائد کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے جبکہ پچیس تیس ارب کے منصوبے یا تو زیر تکمیل ہے یا پائپ لائن میں ہے۔ ڈیٹا کے مطابق قبائلی علاقوں میں تعلیم، صحت، روزگار، مواصلات، اسٹیڈیمز، سرکاری دفاتر اور دیگر متعدد شعبوں کی بحالی اور ترقی کے تقریباً 3626 چھوٹے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں 335 بڑے پراجیکٹس بھی شامل ہیں۔ 

ان میں 70 منصوبے ایسے ہیں جن پر 37 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں جبکہ 28 ارب لاگت کے تقریباً 80 مزید منصوبے یا تو زیر تکمیل ہے یا آخری مراحل میں ہیں۔ 

سرکاری دستاویزات کے مطابق اگر ان ترقیاتی منصوبوں کا احاطہ کیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ ان 3626 پراجیکٹس کی تکمیل پر مختلف مراحل کے دوران 140 ارب سے زائد کی خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے یا خرچ کی جائے گی جو کہ گزشتہ 74 برسوں کی تاریخ میں ان علاقوں کے لیے مختص بجٹ کی سب سے بڑی رقم ہے۔

اس ضمن میں ایک اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ سول اداروں کو اختیارات کی منتقلی کا سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری ہے اور فوج بہت محدود تعداد میں ان  سرحدی علاقوں میں قیام پذیر ہیں جہاں سرحد پار سے حملوں کا خطرہ ہے یا بعض خدشات پائے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان علاقوں کو صدیوں تک بوجوہ پسماندہ رکھا گیا ہے اور یہاں کے عوام کو شدت پسندی اور بدامنی کا بھی لمبے عرصے تک سامنا رہا تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ قبائلی علاقوں کی مین سٹریمنگ کرکے یہاں عام اور بلدیاتی الیکشن کرائے گئے بلکہ ان علاقوں کی ترقی اور استحکام کے لئے تیزی کے ساتھ کام بھی جاری ہے۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اقدامات کی رفتار تیز کرنے اور درکار وسائل کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ ان علاقوں کا امن ایک مستحکم اور پرامن پاکستان اور پورے خطے کے لیے بہت اہم اور لازمی ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket