ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کی شام ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 80 سے زائد دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار لیا ہے اور تینوں افواج ملک کے دفاع، امن کے قیام اور سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر محاذ پر لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ فوج کا سیاست اور حالیہ صورتحال سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی اس لیے قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
ان کے مطابق سیاسی معاملات میں فوجی قیادت کے عمل دخل سے متعلق افواہوں سے گریز کرنا لازمی ہے اور غیر ضروری بحث نہ کی جائے تو اسی میں سب کی بہتری ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ عدم اعتماد کے معاملے پر جو صورتحال بنی ہوئی ہے عسکری قیادت نے اس سے خود کو لاتعلق رکھا ہے اور اس ضمن میں ماضی کے برعکس اب کے بار اپوزیشن بھی اس اپروچ اور غیر جانبدارانہ کردار کی تعریف اور ستائش کرتی نظر آرہی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی اور جمہوری طریقہ ہے تاہم اس پر اسس کے دوران حکومت اور اپوزیشن دونوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ غیر ضروری کشیدگی الزام تراشی اور بد کلامی سے گریز کریں۔
گزشتہ رات پارلیمنٹ لاجز میں جو ناخوشگوار صورتحال دیکھنے کو ملی اس سے بہت منفی پیغام گیا ہے۔ فریقین کو اس ضمن میں ذمہ داری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور عدم اعتماد کے پورے عمل کو جمہوری اور آئینی طریقہ کار کے مطابق شائستگی سے سر انجام دینا ہوگا۔
دوسری طرف سکیورٹی فورسز نے گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے دو مقامات پر دو مختلف کارروائیاں کرکے 4 مطلوب دہشتگردوں کو ہلاک کیا جبکہ مختلف علاقوں میں انٹیلیجنس بیسڈ کاروائیاں جاری ہے۔ اسی طرح ضلع خیبر میں ایک کارروائی کے دوران ایسے ہی نصف درجن اُن افراد یا دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ 4 مارچ کے پشاور حملے میں ملوث تھے۔ درجنوں گرفتاریاں بھی کی جاچکی ہیں جبکہ نیا سیکیورٹی پلان بھی تشکیل دیا جا چکا ہے۔
وزیرستان کے منتخب ایم پی اے نصیراللہ خان وزیر نے اس ضمن میں “وائس آف کے پی” کو بتایا کہ وزیرستان اور دیگر قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے جبکہ حکومت نے عوام ، آراء اور تجاویز معلوم کرنے کے لیے جس مشاورتی عمل کا آغاز کیا تھا اس کے بہتر نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور عوامی مسائل کے حل کا عمل بھی تیز ہو گیا ہے۔
دیکھا جائے تو بعض خدشات اور مشکلات کے باوجود اہم معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس کے لیے لازمی ہے کہ فوج اور حساس اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کیا جائے۔