چار مارچ جمعہ کے روز عین نماز کی تیاری کے دوران پشاور شہر کے کوچہ رسالدار میں موجود ایک اہل تشیع کی جامعہ مسجد پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار سمیت 50 سے زائد نمازی شہید جبکہ 150 کے قریب زخمی ہوئے۔ شہداء میں چھ خاندانوں کے تقریباً 16 افراد سمیت آٹھ بچے بھی شامل ہیں۔ اس واقعے نے پورے ملک کو سوگوار کر کے رکھ دیا کیونکہ یہ گذشتہ چار پانچ برسوں کے دوران پشاور میں ہونے والا پہلا بڑا حملہ تھا۔
کوچہ رسالدار میں اس سے قبل بھی دہشتگردی کے عروج کے زمانے میں کئی ایسے حملے کرائے جا چکے ہیں کیونکہ یہ کوچہ اور علاقہ شیعہ برادری کی قیادت، اہم علماء اور ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں کا ٹارگٹ مسلکی پس منظر میں یہی امام بارگاہ ہی تھا۔ ابتدائی طور پر حملہ کے ساتھ گھنٹے بعد شدت پسند تنظیم داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ داعش اسی طرز پر 2020-21 کے دوران افغانستان خصوصاً کابل شہر میں اہل تشیع کی عبادت گاہوں، سکولوں اور ہسپتالوں کو متعدد بار نشانہ بنا چکی ہے۔ اس لیے حالیہ کارروائی کو داعش کی اسی پالیسی کا تسلسل قرار دیا جاسکتا ہے۔
حملے کے بعد جہاں حکومتی حکام، وزراء فورسز کے افسران اور اپوزیشن کے اہم نمائندے جائے وقوعہ اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچے وہاں عام شہریوں نے امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے کر اپنی روایات کو قائم رکھا جبکہ سیکنڑوں شہریوں نے خون کے عطیات جمع کرائے۔
دوسری طرف مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے نامور علماء نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس حملے کی کھل کر مذمت کرتے ہوئے متاثرین اور اہل تشیع کو مکمل تعاون اور بھائی چارے کی یقین دہانی کرائی اور اس حملے کو انسانیت، اسلام اور پاکستان پر حملہ قرار دے کر حملہ آوروں کو واضح پیغام دیا کہ صوبے اور شہر کے علماء اور عوام اپنے اتحاد سے اس قسم کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
حکومتی ذمہ داران کے علاوہ اپوزیشن کے لیڈروں نے بھی متاثرین سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جائے وقوعہ کے علاوہ ہسپتال کا دورہ کیا اور اس عزم اور مطالبے کو دہرایا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کرکے شدت پسندی اور دہشت گردی کے فکری مراکز کو بھی ختم کیا جائے۔
اس حملے سے جہاں ان سکیورٹی چیلنجز پر پھر سے بحث چل نکلی ہے جو کہ لاتعداد کامیاب فوجی کارروائیوں کے باوجود خطے کی جاری صورتحال کے باعث پاکستان کو درپیش ہے وہاں یہ بات خوش آئند رہی کہ پوری قوم نے شدت پسندی اور دہشت گردی کی کھل کر مذمت اور مخالفت کی۔
اس بات سے قطع نظر کہ متعلقہ ریاستی اداروں کی کارروائیوں کے باعث ماضی کے مقابلے میں صوبے اور ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو اعتماد میں لے کر نئی علاقائی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موثر ترین حکمت عملی تیار کر کے آگے بڑھا جائے۔