عمران خان ڈپریشن کا شکار؟

عمران خان نے 25 مئی کی اپنی مبہم اورناکام مہم جوئی کے بعد پشاور میں جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تیاری ٹھیک نہیں تھی اور یہ کہ انہوں نے واپسی کا فیصلہ اس لئے کیا کہ حکومت اداروں اور ان کے کارکنوں کے درمیان خون خرابہ چاہتی تھی. ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بار پھر تیاری کرنے کے بعد مارچ کریں گے تاہم اگر حکومت جون میں انتخابات کا اعلان کرتی ہے تو وہ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں. وہ دوران پریس کانفرنس بہت مایوس اور غصہ نظر آئے جو کہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ مارچ کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو چکے ہیں اور اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ بعض پارٹی ذرائع کے مطابق انہوں نے پشاور پہنچنے کے بعد نہ صرف بعض لیڈران کو نااہل اور ناکارہ قرار دیا بلکہ سپیشل برانچ کو کارکنوں کی تعداد اور ممبران اسمبلی، وزراء کی کارکردگی اور حاضری کی رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت بھی کی. موصوف نے دوران پریس کانفرنس اسٹیبلشمنٹ کے اور حکومت کے ساتھ مارچ کے دوران رابطوں اور کسی مجوزہ ڈیل کی اطلاعات کو اس کے باوجود مسترد کردیا کہ باخبر حلقے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ محفوظ راستہ دینے کا باقاعدہ تقاضا اور مطالبہ کیا گیا تھا اور اسد قیصر، پرویز خٹک کے ذریعے بات بھی تقریباً فاینل ہوچکی تھی. عمران خان نے پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال پر انتہائی غصہ دکھاکر کہا کہ فوج کے خلاف جاری مہم ان کی پالیسی نہیں بلکہ عوام سوشل میڈیا کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آراء کا اظہار کررہے ہیں.
ادھر وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پختون خوا کے خلاف دو صوبوں کی پولیس کو لڑانے کی سازش اور کوشش کے خلاف ممکنہ کارروائی کی جائے گی اور ان سرکاری افسران کو بھی قانون کے مطابق گرفت میں لایا جائے گا جنہوں نے مارچ کے دوران اپنی حدود سے تجاوز کیا. دیکھا جائے تو عمران خان نے اس تمام گیم کے دوران اپنی صوبائی حکومت کو نہ صرف وفاق کے سامنے لاکھڑا کیا اور سرکاری وسائل کھل کر استعمال کرتے رہے بلکہ انہوں نے دونوں حکومتوں کے درمیان اختلافات بڑھانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو کہ مستقبل میں جنگ ذدہ پختون خوا کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنے گی کیونکہ طریقہ کار کے مطابق صوبے کا 70 فی صد اقتصادی انحصار وفاق پر رہا ہے اور صوبائی حکومت کی اس وقت حالات یہ ہیں کہ اس نے گذشتہ چند برسوں میں 550 ارب روپے سے زائد کا قرضہ لے رکھا ہے اور قبائلی علاقوں کے لئے مختص فنڈز میں بھی 44 ارب روپے کی گڑھ بڑھ ہوئی ہے. بجائے اس کے کہ عمران خان صوبے کی بیڈ گورننس کی بہتری پر کچھ توجہ دیتے انہوں نے صوبائی حکومت کو وفاقی اور پنجاب حکومت کے مد مقابل لا کھڑا کردیا جس کا خمیازہ صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑے گا. عمران خان کا اگلا ہدف اور قدم کیا ہوگا اس پر اب وہ خود بھی کنفیوژن کے شکار ہیں تاہم ان کا جارحانہ انداز شاید اب دوسروں کے علاوہ ملک کی بااثر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابلِ برداشت نہیں رہا اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز کی اپنی پریس کانفرنس کے دوران بہت پریشان دکھائی دیے جس کا اندازہ ان کے الفاظ اور باڈی لینگویج سے صاف دکھائی دے رہا تھا.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket