عمران خان کے قافلے پر حملہ اور سازشی نظریات

عمران خان کے قافلے پر حملہ اور سازشی نظریات

عقیل یوسفزئی

سیاست میں تشدد اور لیڈرز پر حملے پاکستان سمیت ساوتھ ایشیا کے متعدد ممالک میں کوئی انہونی بات یا روایت نہیں ہے. مثال کے طور پر بھارت میں مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا گیا تو بعد کے ادوار میں وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی کو بھی مارا گیا. پاکستان میں لیاقت علی خان، حیات خان شیر پاؤ، ارباب سکندر، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، ڈاکٹر خان صاحب اور ذوالفقار علی بھٹو سمیت متعدد دوسرے مختلف ادوار میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے نشانہ بنتے گئے دوسری طرف یہی صورت حال بنگلہ دیش، افغانستان، فلپائن اور نیپال میں بھی دیکھنے کو ملتی رہی. افغانستان میں تو ایک انقلاب کی آڑ میں سردار داود خان کے گھر کی خواتین اور کم عمر بچوں کو بھی اجتماعی طور پر بدترین موت سے دوچار کیا گیا جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن اور بعد کے متعدد دوسرے حکمران خاندانوں کو بھی ایسی ہی اموات سے دوچار ہونا پڑا.
گزشتہ روز سابق وزیر اعظم عمران خان کی لانگ مارچ پر وزیر آباد پنجاب میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ان سمیت تقریباً ایک درجن افراد زخمی اور ایک کارکن جاں بحق ہوا. مبینہ طور پر ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا جس نے اعتراف جرم کیا تاہم اس افسوس ناک واقعہ کو بھی منٹوں کے اندر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور سازشی نظریات کی بھرمار کرکے حالات کو مذید خراب کرنے کی کوشش کی گئی.
متاثرہ پارٹی نے اس واقعہ کی تحقیقات سے قبل ہی اس حملے کی ذمہ داری وفاقی حکومت اور اہم اداروں کی بعض شخصیات پر لگاکر زمینی حقائق کو حسبِ سابق جذبات کی لہر میں بہا ڈالا. حالانکہ انتظامی طور پر مارچ اور عمران خان صاحب کو سیکیورٹی دینے کی ذمہ داری پنجاب حکومت اور مارچ کے منتظین کی تھی اور پنجاب میں عمران خان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت ہے. عمران خان جب تک اسلام آباد میں رہے وفاقی حکومت ان کو فل فلیج سیکورٹی فراہم کرتی رہی جس پر بعض حلقے اعتراض بھی کرتے پائے گئے. پنجاب حکومت ہی سے تحقیقات کا آغاز ہونا چاہیے جو کہ سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی.
عجیب و غریب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پشاور اور مردان میں تحریک انصاف کے بعض کارکنوں نے اس کے باوجود تشدد کا راستہ اختیار کیا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انہی کی حکومتیں ہیں اور امن و امان کی صورتحال کو بحال رکھنا ان کی ذمہ داری میں آتا ہے. بعض نے نتائج کا ادراک کئے بغیر بعض اہم عمارتوں اور ریاستی شخصیات کے خلاف نعرے بازی کی جن کو عالمی میڈیا نے ریاست کے خلاف خوب استعمال کیا. اس پر ستم یہ کہ بعض سیاسی اور صحافتی حلقوں نے دور سے تماشہ دیکھنے کے مصداق بعض نعروں اور کلپس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گویا پشاور میں حالات بہت خراب ہیں اور کارکنان بے قابو ہو کر کسی اور راستے پر چل نکلے ہیں. بعض نے تو حد کرکے پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی کو ٹینک قرار دیکر سرخی دے ماری کہ پشاور میں ترکی جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے. یہ غیر ذمہ داری اور انتشار پھیلانے کی ایک خطرناک کوشش تھی تاہم المیہ یہ ہے کہ متعلقہ ادارے ایسے مسلسل پروپیگنڈا کے باوجود ایسے عناصر پر ہاتھ نہیں ڈال رہے.
یہ اس ملک کی خوش قسمتی ہے کہ جناب عمران خان اس حملے میں بچ گئے ہیں تاہم اس سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ بعض بااثر حلقے ہر ایسے واقعے کو سازشی نظریات کی بھینٹ چڑھا کر ملک میں نہ صرف بے چینی پھیلاتے ہیں بلکہ دنیا کو کھلے عام یہ مواد بھی فراہم کررہے ہیں کہ پاکستان میں عمران خان جیسے لیڈر بھی محفوظ نہیں ہیں اور یہ کہ پاکستان انارکی کا شکار ہوگیا ہے.
یہ رویہ اور سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا اور سازشی نظریات کا فوری نوٹس نہیں لیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور ایسے حالات کے نتیجے میں کوئی ایسا سانحہ رونما ہوجائے گا جس کی تلافی ممکن نہیں ہوسکے گی اس لیے لازمی ہے کہ سیاسی قائدین اور ریاستی ادارے اپنے، عوام اور ریاست کے مفاد کو ترجیح دیکر جاری مہم گردی اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے اپنا ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کریں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket