قدرتی آفات اور قومی قیادت کی ذمہ داریاں

قدرتی آفات اور قومی قیادت کی ذمہ داریاں

عقیل یوسفزئی

یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ہمارے بعض سیاست دان تاریخ کے بدترین سیلاب کے باوجود اپنے روایتی انداز سیاست، محاذ آرائی اور الزام تراشی سے باز نہیں آرہے. کوشش کی جارہی ہے کہ اس قدرتی آفت کے دوران بھی قوم کو سیاسی اختلافات میں گھسیٹ کر تقسیم کیا جائے اور جو لوگ متاثرین کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے. ایسے سیاستدانوں سے تو وہ عالمی لیڈرز، ادارے اور حلقے ہزار درجہ بہتر ہیں جن کا ہمارے ساتھ نہ تو مذہب کا رشتہ ہے، نہ وہ ہمارے شہری ہیں اور نہ ہی مفادات کا کوئی تعلق. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ امریکی سنٹرل کمانڈ کا ایک اہم وفد اظہار یکجہتی اور مدد کرنے پاکستان آرہا ہے جبکہ دوست ممالک نہ صرف امداد میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں بلکہ برطانیہ سمیت متعدد اہم اور غیر اسلامی ممالک میں پاکستان کی مدد کے علاوہ اس کو قرضوں کی چھوٹ کے آپشنز پر بھی مشاورت ہورہی ہے.


دوسری جانب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اب بھی اہم اداروں سمیت ایکدوسرے کو سرعام چور، ڈاکو کے نام سے مخاطب کرکے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں نہ تو اس آفت کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی ہم اپنے ملک کو اس بدترین بحران سے نکالنے میں سنجیدہ ہیں. پاکستان کے چار وفاقی یونٹوں میں جس لیڈر کی حکومتوں اور عوام کو سیلاب کا سامنا ہے وہ اس ہنگامی حالت میں بھی جلسوں میں مصروف روایتی مخالفت میں مشغول ہیں حالانکہ ان کو ان علاقوں یا صوبائی دارالحکومتوں میں ہونا چاہیے جہاں کے عوام نے ان کو ووٹ دیکر مینڈیٹ سے نوازا ہے. اس پر ستم یہ کہ روزانہ کی بنیاد پر نت نئی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں.اور قومی سلامتی کے ان اداروں کو بھی بخشا نہیں جارہا جو کہ اس مصیبت میں عوام کی خدمت میں صف اول کا کردار ادا کررہے ہیں.
خیبر پختون خوا میں سندھ کے بعد سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اور ایک عالمی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس مہینے کے پی اور گلگت بلتستان کے 4 درجن کے قریب گلیشیرز بوجوہ پگھل کر مزید تباہی پھیلا سکتے ہیں تاہم کسی کو بھی اس سنگین خطرے کا احساس نہیں ہورہا. اب تو عالمی برادری کی تشویش کی یہ حالت ہے کہ ناسا میں ان تباہ کاریوں کی مانیٹرنگ کے لیے ایک ڈیسک قائم کیا گیا ہے. اس ڈیسک نے گزشتہ روز تباہ شدہ علاقوں کی تفصیلات اور تصاویر بھی جاری کی ہیں مگر ہمارے حکمران فوٹو سیشن اور الزامات سے باہر نہیں نکل پارہے.
خیبر پختون خوا کے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ تقریباً ایک کھرب روپے لگایا جارہا ہے جو کہ صوبے اور ملک کے موجودہ معاشی بحران کے تناظر میں ناقابل برداشت حد تک زیادہ ہے. کہا جارہا ہے کہ صوبے میں تقریباً 1400 کلومیٹر کی سڑکوں اور 170 پلوں کے علاوہ 1200 سکولز، 70 نہروں اور 80 ھسپتالوں کو نقصان پہنچا ہے. اس کے علاوہ 600 گھروں، لاکھوں ایکڑ اراضی اور دوسرے املاک کو سیلاب نے برباد کرکے رکھ دیا ہے. اس صورتحال میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں آپس میں لڑتی دکھائی دے رہی ہیں. صوبائی ترجمان نے ایک حالیہ بیان اور بریفنگ میں یہاں تک کہا کہ صوبے کو وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے حالانکہ ان کو صوبے کے معاشی حالات کا پتہ ہے اور یہ بھی کہ ان کی حکومت تقریباً 400 ارب روپے کی مقروض بھی ہے. دوسری طرف شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت بھی پختون خوا کے معاملے پر اس دلچسپی کا مظاہرہ کرتی دکھائی نہیں دے رہی جس کی ضرورت ہے. اگر چہ وزیراعظم نے عمران خان اور ان کے وزیر اعلیٰ کے مقابلے میں صوبے کے نہ صرف ذیادہ دورے کیے ہیں بلکہ امدادی پیکج بھی کئی گنا زیادہ دیا ہے تاہم بڑے بھائی کی حیثیت سے شھباز شریف کا فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی اختلافات سے ہٹ کر وزیر اعلیٰ کے پی سے بذات خود رابطہ کرکے اس صورتحال پر مشاورت کریں.
یہ بات کافی تشویش ناک ہے کہ متاثرین بعض مقامات پرمشکلات سے تنگ آکر یا مایوس ہو کر سرکاری افسران، وزراء اور ممبران اسمبلی کے خلاف نہ صرف مزاحمت پر اترے دکھائی دیے بلکہ بعض امدادی سامان کو بھی لوٹا. اگر یہ سلسلہ چل نکلا اور منتخب عوامی نمائندے متاثرین کی امداد اور بحالی سے لاتعق رہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور حکومتوں کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے.
قومی غیرت اور جاری حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس آفت سے نکلنے تک فریقین سیز فایر کا اعلان کرکے عوام کی مدد کے لئے میدان میں اتریں اور ملک کی فکر کریں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket