لاشوں پر سیاست کا منطقی انجام
عقیل یوسفزئی
مقتول اینکر پرسن ارشد شریف کی والدہ محترمہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست یا رٹ دائر کی ہے جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کی موت کے مبینہ ذمہ دار افراد کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے.
جن اہم افراد کو اس درخواست میں فریق بنایا گیا ہے ان میں سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر مراد سعید، سابق وزیر فیصل واوڈا، ایک نجی ٹی وی کے سی ای او سلمان اقبال اور ایک یوٹیوبر عمران ریاض شامل ہیں.
اکتوبر 2022 کو ارشد شریف کو کینیا کے ایک شہر میں بہت پراسرار طریقے سے قتل کیا گیا تو اس پر ہر پاکستانی دکھی ہوا تاہم اس سے بھی زیادہ افسوس ناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب سابق وزیراعظم عمران خان، ان کی پارٹی اور ارشد شریف کے بعض حامی میڈیا پرسنز نے ابتدائی تحقیقات سے قبل اس واقعے کی ذمہ داری ریاست پاکستان پر ڈال دی اور عالمی میڈیا نے اس واقعے کو پاکستان کے خلاف زمینی حقائق جانے بغیر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا.
اس موت یا قتل کو پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کے لیے بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا گیا اور اس مقصد کے لیے مقتول اینکر پرسن کے چھوٹے بچوں، والدہ اور ایک اہلیہ کو اس انداز میں استعمال کیا گیا جبکہ ابھی ارشد شریف کو دفنایا بھی نہیں گیا تھا.
عمران خان اور ان کے ہم نام، ہم خیال عمران ریاض نے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک حقائق اور تحقیقات کے برعکس اہم حکام کے نام لے لیکر اس کو ایک سازش قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم اب ان کو خود لینے کے دینے پڑ رہے ہیں اور ان کو اس قتل کے مبینہ ذمہ داروں میں شامل کیا گیا ہے.
سازش ہوئی تھی اس میں کوئی شک نہیں مگر یہ سازش ریاست نے نہیں کی تھی بلکہ جو لوگ ارشد شریف کے واقعہ کو ایک اور سازش کے تحت استعمال کررہے تھے قتل کی سازش انہوں نے کی تھی.
تحقیقات تو اپنی جگہ بہت سے عام متعلقہ افراد کو بھی علم تھا کہ ارشد شریف کو سیاسی مقاصد کے استعمال سے قبل کن لوگوں نے پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کیا اور وہ کون تھے جنہوں نے خیبر پختون خوا کی حکومت کی سرپرستی میں مقتول اینکر پرسن کو پشاور سے دبئی بھیجا.
یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ خیبر پختون خوا کی ایک اہم حکومتی شخصیت کے کہنے پر سابق وزیراعظم کی ذاتی ہدایات پر کیسے صوبے کے ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے ارشد شریف کے لیے تھریٹ الرٹ جاری کیا.
یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ کس کی گاڑی میں ایک سابق وفاقی وزیر نے پروٹوکول میں مقتول اینکر پرسن کو پشاور پہنچایا اور اقتدار کے سب سے بڑے عوامی مرکز میں ان کو ٹھراکر اسی بیوروکریٹ کی سربراہی میں بعض درکار سہولیات دیکر دبئی بھیج دیا.
یہ سب کچھ اتنا کھلے عام کیا گیا کہ مذکورہ بیوروکریٹ اور ارشد شریف کی پشاور ایرپورٹ پر کھینچی گئی تصاویر بھی موجود ہیں.
دبئی کے بعد جن لوگوں نے ارشد شریف کو مس گائیڈ کرکے لندن اور پھر وہاں سے کینیا جیسے ملک میں بھجوانے پر مجبور کیا ان کی تمام تفصیلات بھی سب کے سامنے ہیں. نہ کوئی ابہام پہلے تھا اور نہ اب ہے. سب کردار پہلے بھی متعلقہ حلقوں کو معلوم تھے اور اب بھی سب کو بعض ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ یہ کردار معلوم ہیں.
سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان نے بھی کیس کے اصل پس منظر اور حقائق کے برعکس اس قتل پر متعدد بار ریمارکس دیئے اب بال ان کی “کورٹ” میں ہیں. دیکھنا یہ ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے کیسے پوری کرتے ہیں.
یہ محض ایک قابل ذکر پاکستانی شہری کی لاش پر سیاست کرنے اور اس کی آڑ میں ریاست کو بدنام کرنے کا ایشو یا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کیس کو 9 مئ سے پہلے اور اس کے بعد کے سازشی ہتھکنڈوں کے تناظر میں بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے. جن دستیاب حلقوں نے اس قتل کو سیاسی مقاصد کے علاوہ پیسے کمانے کے لیے استعمال کیا ان کو بھی نشان عبرت بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آیندہ کوئی اس قسم کی سازش کو مذاق سمجھنے کی کوشش نہ کریں.