علی اکبر خان
پشاور میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد اتوار کو سابق وزیراعظم نے 25 مئی یعنی بدھ کو موجودہ حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کے لئے حقیقی آذادی مارچ کا اعلان پر جوش انداز میں کیا، سابق وزیر آعظم نے پولیس اور فوج کو بھی پیشگی تنبیہ کی کہ نیوٹرل ہے تو پھر نیوٹرل ہی رہے، مطلب کہ فوج اور پولیس جوکہ آئین کے تحت حکومت وقت کی حکم کی پابند ہے آئین شکنی کرے اور لانگ مارچ روکنے کے لئے حکومتی احکامات پر عملدرامد نہ کرے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف محمود خان کی سربراہی میں دوتہائی اکثریت سے برسراقتدار ہے کپتان کو مکمل یقین ہے کہ محمود خان کی حکومت آذادی مارچ کو حفاظت سے اسلام آباد پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ ملتان جلسے کے بعد بنی گالا کے آس پاس وفاقی پولیس کا سرچ آپریشن شروع دیکھ کر تو ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے کپتان ملتان سے سیدھا پشاور پہنچ گیا۔ ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے اس وقت پی ٹی ائی کے سرکردہ رہنما بھی سابق وزیراعظم کے ساتھ پشاور میں صوبائی حکومت کے خرچ پر محمود خان کے شاہی مہمان ہیں۔
مہمان نوازی پختونوں کی روایتی بات ہے مگر مہمانوازی تک ہو توکوئی بات نہیں لیکن بدھ کو خیبر پختونخوا سے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان ہوچکا ہے اور اس اعلان پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے خیبر پختونخوا حکومت کی سرپرستی میں حکمت عملی بھی طے کی جارہی ہے، سابق وزیراعظم کے کنٹینر کے آگے کرینز، بلڈوزز، ایمبولینس اور دیگر بھاری مشینری اور سازوسامان کا بندوبست کیا جاچکا ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں حقیقی آذادی مارچ کا مرکزی قافلہ بحفاظت اسلام اباد داخل کروایا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ لانگ مارچ پرامن ہے تو پھر کرینوں ،بلڈوزروں پر مشتمل یہ جنگی حکمت عملی کیوں؟
لانگ مارچ کو روکنا نئی اتحادی حکومت کے لئے بھی بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے محتلف قسم کی تجاویز اور منصوبہ بندیاں بھی زیر غور ہیں جس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مرکزی قائدین کی گرفتاریاں، پولیس کے زریعے مارچ کو اٹک سے پار کرنے سے پہلے روکنا شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم نے سوچ سمجھ کر اس بار لانگ مارچ کی قیادت خیبر پختونخوا سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی طویل حکمرانی ہے، نو سالہ طویل حکمرانی پہلے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور اب وزیر اعلیٰ محمود خان نے بیوروکریسی اور پولیس سمیت تمام اہم عہدوں پر تحریک انصاف سے لگاؤ رکھنے والے افسران یا پھر اپنے اعتمادی افسران کو تعینات کر رکھا ہے۔
مختصر یہ کہ بدھ کو ہونیوالا لانگ مارچ خیبر پختونخوا میں انتظامیہ اور پولیس کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی تو غلط نہیں ہوگا، وفاقی حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کو روکنے کے احکامات پولیس اور انتظامیہ کو موصول ہوگئے تو دو حکومتوں کے بیچ پھنسی پولیس اور انتظامیہ کیسے نمٹے گی ;238; وزیراعظم شہباز شریف کی چلے گی یا پھر وزیر اعلیٰ محمود خان کی؟