ملک میں اقتدار کی رسہ کشی اور اس کے نتائج

تحریک عدم اعتماد سے پیدا شدہ صورتحال نے غیر متوقع طور پر تصادم کی شکل اختیار کر لی ہے اور اپوزیشن نے جمعہ کے روز ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ہے جس کو یوم تحفظ آئین کا نام دیا گیا ہے۔ دوسری opposition to strike on friday in islamabadطرف عوام کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہے جس میں اعلےٰ عدلیہ نے یہ طے کرنا ہے کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ درست ہے یا غلط؟
عمران خان اگلے الیکشن کی تیاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے متوقع امیدواروں سے درخواستیں طلب کر لی ہیں تاکہ ان کی بنیاد پر ٹکٹ دیا جا سکیں۔
یہ صورتحال اگرچہ کافی پیچیدہ شکل اختیار کر گئی ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ فریقین تاحال ہر ممکنہ تصادم سے گریزاں ہیں اور مختلف آپشنز کو استعمال کرکے پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ دباؤ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ عام آدمی اس صورتحال کو بہت تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے کیونکہ عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سیاسی قیادت سے نالاں ہیں۔
اس کشیدگی کا سب سے افسوسناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں فوج، حساس اداروں اور عدلیہ کے بعد اب الیکشن کمیشن اور بعض دوسرے متعلقہ اداروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش میں گھسیٹا جا رہا ہے اور خط کے معاملے کو اب سیکیورٹی اداروں کی وضاحت یا جواب دہی کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش ہے اور جاری صورتحال میں پاکستان کے خارجہ معاملات کے تناظر میں اس مطالبے کو پبلک نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں سرعام بحث کی جائے، بہتر طریقہ یہ ہے کہ عسکری ادارے اپنا آئینی اثر رسوخ استعمال کرکے خط والے معاملے پر اپوزیشن کے چند ذمہ داران کو اپنا موقف اور معلومات بتائیں تاکہ اداروں کے بارے میں ذمہ داری اور احتیاط جیسے عوامل کو ممکن بنایا جاسکے اور ابہام دور ہو۔
سپریم کورٹ پر بھی پھر سے سخت تنقید کی جا رہی ہے اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ ازخود نوٹس لینے کے اپنے اقدام کے باوجود ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے پر مجوزہ فیصلے کو غیر ضروری طول دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں بہتر آپشن یہ ہے کہ معاملے کو جلد نمٹا کر آگے کے سفر کو ممکن بنایا جائے تاکہ اگر ملک میں نئے الیکشن کا اہتمام کرنا ہے تو اس کے لئے تیاری کی جائے کیونکہ اپوزیشن بھی یہ چاہتی آئی ہے۔ میڈیا کے کردار کو بھی ہدف تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اکثر تجزیہ کار اور صحافی فریق بن گئے ہیں اور پیشہ ورانہ صحافت کی بجائے ایکٹیوزم کو فروغ دیا جارہا ہے جو کہ ایک خطرناک طرز عمل ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket