میران شاہ میں خود کش حملہ اور فورسز کی کارروائیاں
عقیل یوسفزئی
شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ میں فورسز کی ایک گاڑی پر ایک موٹر سائیکل سوار نے بدھ کے روز خود کش حملہ کیا جس کے نتیجے میں 30 سالہ حوالدار امیر محمد اور ایک شہری شہید ہوگئے جبکہ 4 سیکورٹی اہلکار اور 6 عام شہری زخمی ہوئے.
فورسز نے واقعہ کے بعد سرچ آپریشن شروع کردیا جبکہ علاقے کو محفوظ بنانے کیلئے بھی اقدامات شروع کئے گئے.
رواں برس یہ شمالی وزیرستان میں کرایا گیا چوتھا خود کش حملہ تھا. اس کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا گیا تھا جو کہ چند روز قبل کوئٹہ کے خودکش حملے میں اپنایا گیا تھا. دونوں حملے موٹر سائیکل سواروں کے زریعے کرائے گئے اور دونوں میں فورسز ہی کو نشانہ بنایا گیا.
چونکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان پاک افغان سرحد پر واقع ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد دوسری جانب موجود ہیں اس لیے یہاں حملے کرنا ان کے لیے آسان ٹاسک ہوتا ہے.
دہشتگردی کی حالیہ لہر میں ذیادہ تر حملے فوج اور پولیس پر کیے جارہے ہیں اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق رواں سال 75 فوجی جوانوں اور افسران کو شہید کیا جا چکا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں نے فورسز ہی کو اپنا پہلا ٹارگٹ قرار دے رکھا ہے.
اگر چہ ہفتہ رفتہ کے دوران فورسز نے متعدد علاقوں میں ٹارگیٹڈ آپریشنز کےدوران تقریباً ایک درجن دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے اس کے باوجود جنگ جاری ہے اور پاکستان کے ان علاقوں کے علاوہ رواں مہینے افغانستان میں بھی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.
نامور تجزیہ کار نجم سیٹھی کے مطابق مذاکرات کا جو عمل شروع کیا گیا تھا وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں. ان کے مطابق افغانستان کی حکومت اپنی مجبوریوں اور داعش وغیرہ کے پیدا کردہ مسائل کے باعث خود مشکلات کا سامنا کررہی ہے تاہم پاکستانی ریاست کو اب اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کرنی پڑے گی کیونکہ جاری صورتحال سے نہ صرف سیکورٹی کے مسائل بڑھ رہے ہیں بلکہ اس سے ہماری معاشی اور تجارتی مشکلات میں بھی اضافہ ہورہا ہے.
نامور مذہبی سکالر محمد اسرار مدنی کے مطابق پاکستان نے طالبان حکومت کے قیام کے بعد نہ صرف 5 لاکھ سے زائد متاثرین کو پناہ دی اور روزانہ تقریباً 1500 افغانوں کو ویزے جاری کررہا ہے بلکہ ان کے سینکڑوں سٹوڈنٹس کو تعلیمی سہولیات بھی فراہم کر رہا ہے تاہم لگ یہ رہا ہے افغانستان میں ہمارے کردار کا اعتراف نہیں کیا جارہا. ان کے مطابق کشیدگی کم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ایک واضح افغان پالیسی اختیار کی جائے اور معاملات کو بہتر بنانے کے لیے مذہبی اور ثقافتی ڈپلومیسی کا آغاز کیا جائے.
پختون خوا کے سابق ہوم سیکرٹری سید اختر علی شاہ نے رابطے پر بتایا کہ پاکستان ایک جدید اور طاقتور ملک ہے اور صورتحال پر قابو پانا اس کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لے کر نیا سیکورٹی پلان تشکیل دیا جائے اور گورننس کے مسائل پر توجہ دی جائے. ان کے مطابق ہمیں اب نہ صرف یہ کہ بیڈ اور گڈ طالبان کی تھیوری سے نکلنا ہوگا بلکہ جو توقعات ہم نے افغانستان کی موجودہ حکومت سے وابستہ کی تھیں اس پر بھی نظر ثانی کرنا پڑے گی۔