ناین الیون کا حملہ، 22 سالہ تجربہ اور دنیا پر اس کے اثرات

ناین الیون کا حملہ، 22 سالہ تجربہ اور دنیا پر اس کے اثرات
عقیل یوسفزئی

9 الیون کو وقوع پذیر ہوئے 22 برس گزر گئے ہیں. امریکی اور نیٹو فورسز نے اس حملے کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا. امریکہ پر ہونے والے حملوں میں کوئی ایک بھی افغان شامل نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کی اکثریت عربوں کی تھی تاہم افغانستان پر حملے کے لئے دو جواز ڈھونڈے گئے. ایک یہ کہ القاعدہ نے اس کی پلاننگ افغانستان میں کی اور دوسرا یہ کہ طالبان حکومت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی حوالگی سے انکاری ہے. دستیاب معلومات کے مطابق امریکہ ناین الیون کے واقعہ سے قبل افغانستان پر حملہ کرنے کی پلاننگ کرچکا تھا اور یہ اطلاع امریکہ نے سعودی عرب کے ایک اہم ترین وزیر ترکی الفیصل کے ذریعے ملاعمر اور ان کے ساتھیوں کو پہنچا دی تھی. ترکی الفیصل نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے جو تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق امریکہ ہر صورت میں اسامہ بن لادن کی گرفتاری چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے پاکستان پر نہ صرف دباؤ تھا بلکہ پاکستان کے بعض اہم عہدے داروں نے عملی کوشش بھی کی تھی جن کو ملا عمر، ٹیم نے “ناں” کہا تھا.
ترکی الفیصل کے علاوہ ملاعمر کے بعض ساتھیوں اور متعدد اہم علماء نے بھی مشورہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرکے مجوزہ حملے سے افغانستان کو بچایا جائے مگر ملا عمر نے دو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسامہ بن لادن خود افغانستان سے چلا جانا چاہے تو وہ ان کو نہیں روکیں گے مگر ان کو نکالنے کا اقدام نہیں اٹھائیں گے کیونکہ ان کے بقول اسامہ بن لادن نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی اور اسلام کے علاوہ پشتونولی کی رو سے بھی پناہ لینے والے کو دشمن کے حوالے نہیں کیا جاتا.یہی بات انہوں نے قندھار میں ہونے والی ملاقات میں ترکی الفیصل کو بھی بتادی.
اس سے قبل امریکہ میں “تہذیبوں کے تصادم” کی تھیوری پیش کی جاچکی تھی جس کی بنیاد یہ تھی کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کو مسلمانوں یا مسلم ممالک کے خلاف جنگ یا مزاحمت کرنی چاہیئے.
ناین الیون کے واقعات نے امریکہ کو یہ موقع فراہم کردیا اور اس نے نہ صرف افغانستان، عراق اور شام پر چڑھائی کی بلکہ پاکستان اور چند دیگر ممالک بھی اس لہر اور جنگ کی لپیٹ میں آنے لگے. اس صورتحال نے علاقائی سطح پر شدید بدامنی اور کشیدگی کو جنم دیا جس کے منفی اثرات اب بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں.
امریکہ نے 20 برسوں تک یہ جنگ لڑی جس کے بدلے میں اسے 4 سے 6 ٹریلین ڈالرز کا مالی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اس کے تقریباً 9000 فوجی بھی نشانہ بنے. اس کے بدلے میں کہا گیا کہ اس جنگ کے باعث امریکہ نے القاعدہ کو کمزور کرکے لاحق ممکنہ خطرات کو ختم کیا. تاہم عجیب صورتحال اس وقت بنی جب اسی امریکہ نے سال 2020 کے دوران افغان طالبان سے مذاکرات شروع کیے اور ایک لمبی پراسیس کے ذریعے دوسرے فریق (طالبان) کی شرائط پر افغانستان ان کے سپرد کردیا.
اگست 2021 میں طالبان پھر سے اسی افغانستان پر پھر سے قابض ہوگئے جن کی حکومت امریکہ نے 22 برس قبل بہت بڑی قیمت ادا کرکے ختم کی تھی.
اس تمام صورتحال کا ایک پہلو تو یہ سامنے آئی کہ القاعدہ کمزور ہوگئی تاہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ ردعمل میں داعش جیسی ایک اور خطرناک، طاقتور اور شدت پسند قوت سامنے آئی جبکہ دوسری طرف افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کی قوت میں بھی اضافہ ہوا جس نے 15 اگست 2021 کے بعد پاکستان پر تقریباً 4000 حملے کئے اور حملوں کی یہ لہر 2023 کے دوران بھی جاری رہی.
اگر چہ امریکہ کے مطابق القاعدہ ختم یا کمزور ہوچکی تاہم ایک سابق اہم امریکی عہدیدار جنرل مکینزی نے 11 ستمبر 2023 کو ایک انٹرویو میں بعض دوسرے انکشافات کے علاوہ القاعدہ کے مستقبل اور کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی نئی صف بندی تیزی سے جاری ہے اور یہ کہ افغان طالبان اور ان کی حکومت کے ساتھ القاعدہ کے نہ صرف یہ کہ قریبی روابط قائم ہیں بلکہ فریقین کے درمیان نظریاتی اور تنظیمی ہم آہنگی کے علاوہ “خاندانی” تعلقات بھی موجود ہیں. جنرل مکینزی کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کی موجودگی اور طوالت القاعدہ سمیت بعض دیگر تنظیموں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگی.
تلخ حقائق تو یہ بھی ہیں کہ ان 22 برسوں کے تجربات اور سرمایہ کاری کے باوجود جہاں امریکی مفادات اس اہم خطے میں محفوظ نہیں کہلائے جاسکتے وہاں اس نے بعض اہم اتحادیوں کو بھی بدگمان کردیا ہے اور بہت سے اتحادی چین اور روس کے قریب ہونے لگے جن میں پاکستان بھی شامل ہے حالانکہ پاکستان سال 1979 سے لیکر فروری 2020 کے دوحہ ایگریمنٹ تک نہ صرف امریکہ کا مستقل اتحادی بن کر اس کے ساتھ مل کر افغانستان کے معاملات میں براہ راست امریکہ کا پارٹنر بنا رہا بلکہ ناین الیون کے بعد یہ بوجوہ مسلسل حالت جنگ سے بھی دوچار رہا.
، اقدامات، اثرات اور نتائج جو بھی ہو اس تمام دور کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ان 22 برسوں کے نتیجے میں نہ تو علاقائی بدامنی میں کمی واقع ہوئی، نہ امریکہ کے توسیع تر مفادات حاصل ہوسکے اور نہ ہی عالمی امن کو یقینی بنایا جاسکا.بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ علاقائی اور عالمی امن کو درپیش چیلنجز اور خطرات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے تو غلط نہیں ہوگا

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket