واقعہ مدینہ کی ذمہ داری کس پر؟

گزشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کے عمرہ ادائیگی کے دوران بعض بدبخت پاکستانیوں نے روضہ رسول کے سامنے جو حرکت کی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سیاسی مخالفت میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور ایسے بداخلاق لوگوں سے کسی بھی قسم کی حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے. المیہ یہ ہے کہ ایک سابق حکمران جماعت کے اہم رہنماؤں نے اس شرمناک حرکت کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ شدید ترین عوامی ردعمل کے باوجود اس کا دفاع بھی کیا۔
ان لوگوں نے پہلے سازش کا ڈرامہ رچاکر جہاں قوم کو گمراہ کیا وہاں امریکہ کو بھی ناراض کیا. یہ اس پر نہیں رکے بلکہ اس نام نہاد سازش میں سابق اپوزیشن، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور فوج کو بھی شامل کر دیا. اور ان اداروں کو متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش میں ہر حد کو پار کیا۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کی صبر کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اسی منفی ذہنیت کو ان عناصر نے ایک ایسی مقدس مقام میں آگے بڑھایا جہاں لوگ اونچی آواز میں بات کرنا بھی گستاخی اور گناہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی منفی ذہنیت اور سیاسی انتہا پسندی کا ایک ایسا اظہار تھا جس کے لیے مذمت نامی لفظ کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے. ہٹ دھرمی کی انتھا تو یہ ہے کہ اقتدار سے محرومی سے حواس باختہ اس طبقے نے مذمت کی تکلیف بھی گوارا نہیں کی بلکہ اس ذلیل حرکت کا دفاع کیا جاتا رہا. پاکستان کے امیج کو اس رویے کے باعث جو دھچکہ لگایا گیا اس کا شاید ان عناصر کو اندازہ بھی نہیں ہے۔
مسلسل کشیدگی، بدکلامی اور بد اخلاقی کے علاوہ اس طبقے نے ملک میں انارکی اور خانہ جنگی کا جو راستہ اختیار کیا ہے اس پر مذید خاموش رہنا اب ممکن نہیں رہا ہے ورنہ یہ لوگ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑ یں گے اور پاکستان کی ساکھ کے علاوہ اس کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی. پاکستان 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے اور اس طرزِ عمل کے بعد اس ملک کی قسمت اور ساکھ سے کھیلنے کی اجازت چند ہزار سیاسی کارکنوں کو کسی بھی قیمت پر نہیں دی جاسکتی۔
وقت ضائع کرنے کی بجائے اس بیانیہ اور اس قسم کی حرکتوں کا سخت نوٹس لینا اب ریاست کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے جبکہ علماء، اساتذہ اور والدین کو بھی اب اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket