سال 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ایک لاکھ اٹھ ہزار کے قریب خاندان پراوینشیل ڈیزاسٹر مینجمینٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) کے ساتھ بطور ٹی ڈی پیز رجسٹرڈ ہوئے تھے جن کو حکومت کی طرف سے 12 ہزار روپے فی خاندان ماہوار امدادی رقم دی جاتی رہی جبکہ نقد امدادی رقم کے علاوہ انہیں ہر ماہ ہر خاندان کو باقاعدگی سے اٹا،گھی ، دالیں اور دیگر غذائی اجناس کی صورت میں راشن بھی دی جاتی رہی ۔ اس دوران پاک فوج کی طرف سے کلیئر شدہ علاقوں کو متاثرین کی باعزت واپسی کا عمل بھی جاری رہا اور اس وقت صرف 15 ہزار 229 خاندان بطور متاثرین رجسٹرڈ ہیں جن کو ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ 12 ہزار نقد جبکہ اپریل 2021 میں راشن بند ہونے کے بعد صوبائی حکومت کی طرف سے راشن کے جنس کے حساب سے8 ہزار روپے بطور راشن الاؤنس جاری کئے گیے۔ ۔پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک شمالی وزیرستان کے متاثرین کو وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے دی جانے والی امداد کی مد میں 37ارب روپے سے زائد کی رقم ماہوار کیش گرانٹ ، 2 ارب سے زائد راشن کی مد میں جبکہ اٹھ ارب سے زیادہ رقم واپسی کے دوران دی جانی والی نقد امداد کے طور پر ادا کی جا چکی ہے ۔
پشاور پریس کلب کے سامنے شمالی وزیرستان کے متاثرین کی حالیہ احتجاجی دھرنے کے حوالے سے ایک بیان میں ڈی جی پی ڈی ایم اے شریف حسین صاحب نے بتایا کہ مجموعی طور پر شمالی وزیرستان کے 15 ہزار 229 خاندانوں کو ہر ماہ 20 ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے 32کروڑ روپےسے زائد کی امداد دی جا رہی تھی جبکہ حال ہی میں افغانستان سے بھی سات ہزار سے زائد خاندان واپس اگئے ہیں جن کو بھی دیگر متاثرین کی طرز پر 12 ہزار اور اٹھ ہزار فی خاندان ماہوار امداد دی جا رہی ہے ۔ حال ہی میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ 93 دیہاتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے سات ہزار متاثرین خاندان جن کے علاقے پُرامن ہیں ، ایسے متاثرین کو باقاعدہ طور پر واپس کیا جائے۔ لہذا روایتی طریقہ کار کے مطابق ان کو بذریعہ اشتہار مطلع کیا گیا کہ بکاخیل کیمپ میں واپسی کا مرکز قائم کیاگیا ہے لہذا شیڈول کے مطابق واپسی مرکز تشریف لاکر اپنی مروجہ امدادی سامان ،اباد کاری الاؤ نس اور ٹرانسپورٹ الاؤ نس مبلغ 35 ہزار روپے اور دیگر مراعات وصول کرلیں اور اپنے اپنے علاقوں میں تشریف لیجائیں ساتھ ہی یہ بھی مطلع کیا گیا کہ واپس نہ جانے کی صورت میں مندرجہ بالا مراعات میں سے کسی کے بھی حقدار نہیں ہونگے ۔لیکن اشتہار میں دئے گے واپسی شیڈول (جو 12 سے 31 مئی 2022 تک تھا) کے مطابق مقررہ وقت میں کسی نے واپسی کیلئے رابطہ نہیں کیا جس کے بعد سات ہزار کے قریب ایسے خاندانوں کی امدادی رقوم بند کردی گئی ۔ جبکہ 8 ھزار سے زیادہ ایسےخاندان جن کے علاقے ابھی تک کلیر نہیں ہے کی ماہانہ 20 ھزار وظیفہ اب بھی جاری ہے۔ مزید یہ بتانا ضروری ہے کہ حال ہی میں افغانستان سے بھی سات ہزار سے زائد خاندان واپس اگئے ہیں جن کو بھی دیگر متاثرین کی طرز پر 12 ہزار اور اٹھ ہزار فی خاندان ماہوار امداد دی جا رہی ہے
اس سلسلے میں کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ ان کے علاقے کلیئر نہیں ہیں اور ان کے امداد کو بھی بند کردیا گیا ہے جس کیلئے مظاہرین کی نامزد کردہ کمیٹی کے ساتھ ڈی جی پی ڈی ایم اے شریف حسین صاحب اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد وزیر نے تفصیلی مذاکرات کئے جس کے بعد ایسے تمام متاثرین کے شناختی کارڈز کی تصدیق ہنگامی بنیادوں پر شروع کی گئی اور اس کیلئے خصوصی طور گریوینس ڈیسک کا قیام عمل میں لایا گیا جو ایسے تمام متاثرہ خاندانوں کی داد رسی اور تصدیق کرےگا اور جیسے ہی تصدیق کا یہ عمل مکمل ہوجائے گا ان مستحق خاندانوں کی امداد دوبارہ بحال کی جائیگی ۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ان تمام متاثرین جن کے علاقے کلیئر ہیں ، کی واپسی کیلئے مروجہ طریقئہ کار اپنایا گیا ہے اس لئے ایسے متاثرین کے احتجاج کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں بنتا-