پاکستانی قوم پرستوں کی بدحواسی اور بدلتے حالات

سیاسی اور ریاستی معاملات میں خواہشات اور خوش فہمیوں کی بجائے درست سمت، سیاسی بصیرت اور موثر فیصلہ سازی جیسے عوامل کی اہمیت ہوتی ہے۔  حال ہی میں جب طالبان نے افغانستان میں بغیر کسی حکومتی مزاحمت کے کابل سمیت بڑے شہر قبضہ کرکے اشرف غنی کی چھوڑی گئی حکومت کے معاملات سنبھالے تو امریکہ نواز افغانی اور پاکستان کے قوم پرست اور لبرل حلقے سکتے میں آ گئے حالانکہ امریکی صدر جو بائیڈن سمیت عالمی لیڈرز اور بعض طالبان کمانڈر آن دی ریکارڈ کہہ رہے ہیں کہ  اشرف غنی ٹیم کی فرار اور فورسز کا غیر متوقع سرنڈر ان کی وہم و گمان  میں بھی نہیں تھا۔ پاکستان کے قوم پرستوں خصوصاً اے این پی اور پی ٹی ایم نے اس تلخ حقیقت کے باوجود افغان طالبان اور پاکستان کے خلاف نام نہاد سوشل میڈیا پر اشرف غنی کے حق میں ٹرینڈ چلایا ہے کہ موصوف مدعی ہو کر بھی اپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ نامعلوم مقام منتقل ہو چکے تھے اور پیچھے رہ جانے والے ان کے وزراء مشیر فوجی سربراہان اور حامی کھلےعام  اُ ن کو اپنی ناکامی اور طالبان کی کامیابی کا ذمہ دار قرار دے کر سخت ترین القابات سے ان کو نواز رہے تھے۔

قوم پرستوں نے چند ہفتے قبل چارسدہ میں منعقدہ ایک جرگہ کے دوران بدلتے حالات کا ادراک کئے بغیر جذبات اور خوش فہمی کی بنیاد پر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کی فورسز کو بہت بہادر اور عوام کی حمایت یافتہ قرار دے کرموقف  اپنایا تھا کہ اشرف غنی جان دے دیں گے مگر مورچہ نہیں چھوڑیں گے اور یہ کہ پاکستان افغانستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔  تاہم اشرف غنی اور ان کی فورسز ریت کی دیوار ثابت ہوئے  اور جو بائیڈن نے اپنی اہم تقریر میں سابقہ حکومت خصوصاً اشرف غنی کو دلائل کی بنیاد پر نتائج کا ذمہ دار قرار دے کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔اسکے باوجود قوم پرست اشرف غنی کو صدر کے نام سے مخاطب کرکے ان کا دفاع کرتے رہے اور اپنے سادہ لوح اور جذباتی کارکنوں کو ایسے احکامات بلکہ معجزوں کی نوید سناتے رہے جن کا نہ تو برسرزمین کوئی وجود ہے اور نہ ہی کوئی  امکان۔

باہر اور اندر بیٹھے کی  بولڈ وارئیرز بدحواسی کے عالم میں ایسے بے تُکے دلائل دیتے گئے جس نے ان کی بصیرت،  سیاسی تربیت اور معلومات کے معیار کو سوالیہ نشان بنا دیا۔  اُن کے حالیہ طرز عمل سے ایک بار پھر یہ بات درست ثابت ہوگئی کہ ایک تو اُن میں وِژن کا فقدان ہے دوسرا یہ بدلتے حالات کا ادراک نہیں رکھتے اور تیسرا یہ کہ یہ لوگ اپنے موقف کے معاملے پر دوسروں سے زیادہ انتہا پسند اور تنگ نظر ہیں۔اندھی تقلید پر سیاسی ہٹ دھرمی کے جو مظاہرے حالیہ تبدیلی کے دوران ان عناصر کی جانب سے دیکھنے کو ملے اس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران عوامی سطح پر قوم پرستوں اور اشرف غنی کے بارے میں نت نئے لطیفے بنتے گئے اور ان کا طرز عمل ایک مذاق بن کر رہ گیا۔

بدحواسی کے عالم میں بدکلامی اور بد اخلاقی سے بھی گریز نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کے خلاف ان کی روایتی مہم جوئی اس کے باوجود جاری رہی کہ بازی پلٹ گئی تھی،  اُن کا بیانیہ میدانِ عمل میں دم توڑ چکا تھا اور لروبر کا شاعرانہ نعرہ دم توڑ چکا تھا۔ اس دوران ماضی پرستی کا رویہ بھی ان کے ہاں عروج پر رہا حالانکہ عالمی اور علاقائی سطح پر نئی صف بندی کے اشارے مل رہے تھے اور افغان طالبان عالمی راہداریوں اور میڈیا میں پہلی ترجیح کے طور پر زیر بحث رہی۔اس تمام تر صورتحال نے جہاں لبرلز اور قوم پرستوں کے بیانیے اور نظریات کے علاوہ ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں وہاں یہ سوال بھی اٹھا لیا ہے کہ بدلتے حالات میں ان کی حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے یا ہونی چاہیے۔

اس ضمن میں واحد آپشن یا راستہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ یہ لوگ خوش فہمی اور پراکسیز پر انحصار کرنے کی بجائے پاکستان کی سیاسی چوکھٹ میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا پرامن راستہ اپنا کر اس ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اپنے حامیوں کو مزید آزمائش اور اذیت سے بچانے کا راستہ اپن

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket