پختونخوا اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک داخل

ملک کا سیاسی اور آئینی بحران کم اور حل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد وفاقی حکومت متحدہ اپوزیشن کو منتقل ہو جائے گی۔ دوسری طرف عمران خان نے گزشتہ شام کو اپنی ایک ٹیلی ویژن تقریر میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بعض خدشات کا اظہار کرنے کے علاوہ یہ کہہ کر ایک اچھا رویہ اپنایا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں تاہم اپوزیشن کے مجموعی طرز عمل اور بیرونی سازش کے تناظر میں اتوار کو یوم احتجاج منائیں گے اور جمہوری مزاحمت کریں گے۔

اسی تناظر میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی اپوزیشن نے گزشتہ روز اس خدشے کے پیش نظر وزیر اعلیٰ محمود خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی کہ عمران خان کی جانب سے ممکنہ طور پر کے پی اسمبلی توڑنے کے کسی متوقع فیصلے کا راستہ روکا جاسکے۔ 20 ممبران کی دستخطوں پر مشتمل اس تحریک کو جن پارٹیوں نے جمع کرایا ان میں اے این پی، جے یو آئی، نون لیگ، جماعت اسلامی اور باپ شامل ہیں۔

ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر سیف نے ردعمل میں کہا کہ حکومت گرانے کی کسی سازش کو کامیاب ہوتے نہیں دیا جائے گا۔ صوبے اور ملک کے عوام عمران خان کے ساتھ ہیں تاہم گورنر پختونخوا وزیر اعظم کی ہدایت پر استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبائی اسمبلی کو تحلیل نہیں ہونا چاہیے۔

باخبر صحافی افتخار فردوس نے اس ضمن میں رابطے پر بتایا کہ تحریک انصاف اب بھی صوبے کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے اور حالیہ بلدیاتی الیکشن کے دو مرحلوں کے دوران اس کے تقریباً نو لاکھ ووٹ بڑھ گئے ہیں۔ ان کے مطابق ان انتخابات میں مسلم لیگ اور پی پی پی کو سخت دھچکا لگا ہے جبکہ اے این پی کے ووٹوں میں محض 30 ہزار ووٹوں کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے تاہم جے یو آئی کی پوزیشن بہتر رہی۔

نوجوان صحافی عرفان خان کے مطابق کے پی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کی تعداد 100 کے قریب ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے مجموعی ایم پی ایز کی تعداد تقریباً چالیس ہے۔ اس لئے اس حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اگرچہ پی ٹی آئی میں اب بھی گروپ بندیاں موجود ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان کو پختونخوا میں وہی مقام، حیثیت اور مینڈیٹ حاصل ہے جو کہ نون لیگ کو پنجاب اور پیپلزپارٹی کو سندھ میں حاصل ہے۔

سینئر اینکر پرسن نعیم اللہ یوسفزئی نے اس ضمن میں بتایا کہ معاملات بہتر ہو رہے ہیں اور عمران خان کا قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ان کے مطابق حکومت کی تشکیل آئینی طور پر اپوزیشن کا حق ہے اور عمران خان اپنے بیانیہ اور موقف کی بنیاد پر اگر پرامن سیاسی تحریک چلاتے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے تاہم سیاسی کشیدگی اور تصادم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

سیاسی تجزیہ کار نئی وفاقی حکومت کے چیلنجز اور معاشی مسائل کو نئی حکومتی قیادت کے لیے بڑی آزمائش قرار دے رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ کشیدگی اور بے چینی میں کمی واقع ہوگی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket