عقیل یوسفزئی
سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے اپنے اعلان کے مطابق حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے اور کارکنان 25 کو کشمیر ہائی وے اسلام آباد میں جمع ہوکر اپنے لیڈر عمران خان کی اگلی حکمت عملی یا پیشقدمی کا انتظار کریں گے۔ دوسری طرف اسلام آباد اور پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی کے مختلف لیڈران کے گھروں پر منگل کی رات چھاپے مارے تاہم ان کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ پختون خوا اس لئے اس قسم کی کارروائیوں سے بچا رہا کہ یہاں اس پارٹی کی اپنی حکومت ہے جو نہ صرف لانگ مارچ کی کھل کر سرپرستی کررہی ہے اور عوامی وسائل اس پر خرچ کر رہی ہے بلکہ جناب عمران خان نے بھی گزشتہ کئی روز سے سی ایم ھاوس پشاور میں پناہ لے رکھی ہے اور اسی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ سب سے بڑا جلوس بھی منگل یا بدھ کے روز انہی کی قیادت میں پشاور اور دوسرے شہروں ہی سے مارچ کے لئے اسلام آباد نکلے گا۔
عمران خان نے پیر کے سہ پہر وزیر اعلیٰ اور دوسرے لیڈران کے ہمراہ پشاور صدر کا دورہ کیا جھاں وہ عام لوگوں سے ملے اور اس دوران انہوں نے لوگوں کو مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔ تاہم اس موقع پر پہلے کی طرح پشاور کے میڈیا کو بے خبر رکھ کر بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ اس سے قبل جب وہ دو بار پشاور پہنچے تو پشاور کے میڈیا کو ملنے یا بلانے سے گریز کی عجیب و غریب پالیسی اختیار کی گئی اور اس کے باوجود صحافیوں کو ملنے سے گریز کیا گیا کہ پشاور کے میڈیا نے ہر وقت نہ صرف ان کا خیرمقدم اور احترام کیا بلکہ 8.9 سال یہ میڈیا ان کی 2 صوبائی حکومتوں کا “پشت بان” اور ترجمان بھی بنا رہا۔ اب کے بار جس طریقے سے اس انصاف دوست میڈیا کو نظر انداز کیا گیا اس پر سنجیدہ اور غیر جانبدار صحافیوں نے حیرت کا اظہار بھی کیا۔ ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ مشورہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا گیا کہ کہیں بعض باجرات صحافی محمود خان حکومت کے بعض “کارنامے” خان صاحب کے گوش گزار نہ کریں۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر عوام اور سیاسی حلقوں کی بڑی تعداد نے اس طرزِ عمل پر شدید تنقید کی کہ خان صاحب نے لانگ مارچ کی تیاری اور خود کو محفوظ رکھنے کے لیے تو پشاور کا انتخاب کیا تاہم انہوں نے بحیثیت وزیراعظم دھشت گردی کے سنگین واقعات کے بعد متاثرین سے اظہار یکجہتی کیلئے ایک بار بھی کھبی پشاور آ نا گوارا نہیں کیا۔ دونوں شکایات اور اعتراضات کا ایک جینوین پسمنظر موجود ہے تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ عمران خان صاحب کو ان شکایات کی پرواہ اس لئے بھی نہیں کہ وہ اب بھی اس صوبے کو اپنا مضبوط مورچہ سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے پشاور میں ہی اپنے قیام کو منتخب کیا۔ اس رویے کا اگر سنجیدگی کے ساتھ جایزہ لیا جائے تو اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ پختون خوا مستقبل قریب میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سیاسی اور انتظامی تصادم کا مرکز بنا رہے گا حالانکہ جس وقت صوبے کے سول حکمران اسلام آباد مارچ کی تیاریاں کررہے تھے اسی دوران صوبے کی عسکری قیادت ایک نمائندہ قبائلی جرگے کے ذریعے صوبے میں مستقل امن کے قیام کی ایک سنجیدہ کوشش میں مصروف عمل تھی اور اس کوشش میں تھی کہ ایک مزاحمتی گروپ کے ساتھ ریاستی شرائط پر مذاکرات کے ایک جاری عمل کو کامیاب بنایا جائے۔
