پختون خوا کے جنوبی اضلاع کو آندھی اور طوفان کے باعث اموات کا سامنا
عقیل یوسفزئی
ہفتے کے روز خیبر پختون خوا اور پنجاب کے متعدد علاقوں میں بارشوں کے ساتھ بدترین قسم کی آندھی اور طوفان نے جہاں تقریباً نصف درجن اضلاع کے انفراسٹرکچر، فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچایا وہاں درجنوں افراد اس کے نتیجے میں جاں بحق اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے.
پی ڈی ایم اے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق بنوں، لکی مروت، کرک اور نواحی علاقوں میں اس تباہی کے نتیجے میں 26 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 160 سے زیادہ رہی. سب سے زیادہ جانی نقصان ضلع بنوں میں ہوا جہاں دیواریں اور چھتیں گرنے سے 15 افراد جاں بحق اور 98 زخمی ہوگئے. لکی مروت میں خ
جاں بحق افراد کی تعداد 5 اور زخمیوں کی 40 رہی جبکہ کرک میں 4 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوگئے.جاں بحق ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں.
اس صورتحال سے نمٹنے اور متاثرین کو طبی اور دیگر درکار سہولیات کی فراہمی کے لئے متعلقہ حکام اور اداروں کی جانب سے فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے گئے اور ریسکیو کی سرگرمیوں میں دوسرے حکومتی اور نجی اداروں کے علاوہ پاک فوج نے بھی اہم کردار ادا کیا.
لاشوں اور زخمیوں کو ملبے کے نیچے سے نکالنے اور ان کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لئے اعلیٰ حکام نے نہ صرف تمام اقدامات کے احکامات جاری کئے بلکہ فوجی حکام سمیت دیگر نے ریسکیو آپریشن کی رات گئے تک خود نگرانی بھی کی. ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور بجلی سمیت دیگر سہولیات کی فوری فراہمی کے لئے اقدامات شروع کئے گئے کیونکہ آندھی اور طوفان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کے نتیجے میں پورے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا. وزیر اعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، سراج الحق، ایمل ولی خان سمیت مختلف لیڈرز نے جہاں متعلقہ حکام سے رابطے کئے وہاں کور کمانڈر پشاور اور متعلقہ علاقوں کے فوجی حکام نے بھی ریسکیو کی سرگرمیوں کے لئے ضروری ہدایات جاری کیں.
ان اموات اور نقصانات نے ہر پاکستانی کو دکھی کردیا تاہم اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون کافی برسوں سے کلایمیٹ چینج کی بدترین لپیٹ میں ہے اور متعلقہ اداروں کے علاوہ عوام بھی اس چیلنج سے نمٹنے اور اس کے اثرات سے بچنے کے لیے وہ اقدامات اور تدابیر اختیار نہیں کررہے جن کی ضرورت ہے.
لازمی ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے سماجی اور ادارہ جاتی سطح پر کوئی مربوط حکمت عملی اپنائی جائے اور شہری بھی اپنی حفاظت سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کریں.