پشاور حملے کے بعد جہاں شہر کے ہر طبقے نے بے مثال اتحاد، تعاؤن اور قربانی کا مظاہرہ کرکے قومی یکجہتی کی نئی مثال قائم کی۔ وہاں متعلقہ حکومتی اداروں نے بھی خودکش حملہ آور، سہولت کاروں کا سراغ لگانے کے لیے متعدد افراد کو گرفتار کرنے سمیت عبادت گاہوں اور دیگر اہم مقامات کی سکیورٹی کو مزید سخت کرنے کا ایک پلان بھی تیار کیا تاکہ آئندہ کے لئے اس قسم کے حملوں اور صورتحال کا راستہ روکا جاسکے۔
عالمی شہرت یافتہ صحافی اسماعیل خان کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے بہت تیزی کے ساتھ خود کش حملہ آور کی نہ صرف پوری پروفائل حاصل کی بلکہ متعدد اُن افراد کو بھی گرفتار کر لیا ہے جن کے بارے میں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ وہ اس حملے میں بلاواسطہ ملوث رہے ہیں۔ اُن کے مطابق خودکش حملہ آور نسلی طور پر افغانی تھا تاہم اس نے زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان میں گزارا، وہ کچھ عرصہ قبل افغانستان چلا گیا تھا جہاں اس نے داعش کو جوائن کر کے ٹریننگ لی اور ان کے والدین نے کچھ عرصہ قبل اس کےلاپتہ یا غائب ہونے کی شکایت یا رپورٹ بھی درج کریں۔
دوسری طرف کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، گورنر شاہ فرمان اور وزیر اعلی محمود خان نے اعلےٰ حکام کے ساتھ جائے وقوعہ جاکر اس حملے کے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کر کے ان کو یقین دلایا کہ ریاست نہ صرف یہ کہ ملوث افراد اور ان کی پس پردہ قوتوں کو نشان عبرت بنائے گی بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام درکار اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ تین اہم عہدیداران نے متاثرین کی تجاویز اور شکایات کو غور سے سنا اور عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔
پشاور حملے پر اگر ایک طرف پورے ملک میں دکھ، تشویش اور اظہار یکجہتی پر مشتمل ردعمل سامنے آیا وہاں اقوام متحدہ امریکہ اور روس سمیت متعدد عالمی اداروں اور ممالک نے بھی حکومتِ پاکستان، اہلیان پشاور اور متاثرہ خاندانوں سے رسمی اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کر کے دہشت گردی کو انسانیت کے لیے ناسور قرار دے دیا۔ دوسری طرف افغانستان کی حکومت نے بھی اس واقعے کی کل کر مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ دونوں برادر ممالک اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق داعش بعض غیر ملکی قوتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو عدم استحکام اور بدامنی سے دوچار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں، سیاسی قوتوں، علماء اور عوام کو مل کر وہی رویہ اپنانا ہوگا جو کہ اے پی ایس حملے کے بعد اختیار کیا گیا تھا۔ تجزیہ کاروں اور سکیورٹی حکام کے مطابق چونکہ افغانستان میں وہاں کی حکومت نے داعش کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے اس لیے اس کے حملہ آوار اور ارکان پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں تاہم ان کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔