پشاور میں انٹرا مدارس سپورٹس چیمپئن شپ کا انعقاد

 قیوم اسٹیڈیم پشاور میں اپنی نوعیت کی پہلی انٹرا مدارس سپورٹس چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا جس میں خیبر پختون خوا کے ضم شدہ اضلاع کے تقریباً 800 مدارس کے سینکڑوں طلباء نے حصہ لیا۔ کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید نے اس میگا ایونٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مدارس کے طلباء کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی اور دنیا کو پیغام جائے گا کہ مدارس کے حوالے سے جو منفی تاثر قائم کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود 35 ہزار سے زائد مدارس میں 20 لاکھ سے ذیادہ طلباء دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں تاہم اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ان مدارس میں عصری تعلیم کو بھی سکھایا جائے تاکہ یہ مدارس معاشرے میں ایک پل کا کردار ادا کریں۔

چیمپئن شپ کے دوران سات مختلف کھیلوں کے مقابلے رکھے گئے جن میں قبائلی علاقوں کے متعدد مقامی کھیل بھی شامل تھے. اس سے قبل بھی قبائلی علاقوں کےنوجوانوں کے لیے پشاور سمیت مختلف دیگر شہروں میں اسپورٹس کے مقابلے رکھے گئے تھے جن میں ہزاروں کھلاڑیوں نے شرکت کرکے ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں اور یہ کہ وہ امن اور ترقی چاہتے ہیں. تاہم مدارس کے طلباء کے لیے اس چیمپئن شپ کا اہتمام نہ صرف پہلا منفرد تجربہ ہے بلکہ اس کوشش کے قبائلی علاقوں کی معاشرت اور طلباء کی نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

مدارس کے کردار اوراہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ ادارے ہر برس لاکھوں اُن بچیوں اور بچوں کی کفالت اور تعلیم کی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں جن کی اکثریت بوجوہ ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی. نائن الیون کے حملے کے بعد عالمی طاقتوں نے مدارس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور موقف اختیار کیا کہ ان کے ذریعے جھادی اور انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دیا جارہا ہے حالانکہ یہ پورا سچ نہیں تھا اور  شاید اسی ردعمل کا نتیجہ تھا کہ مدارس کو کافی بدنام کیا گیا۔ اسی دوران ہزاروں مدارس نے اپنے نصاب میں تبدیلی کرکے عصری علوم اور ٹیکنالوجی کو اس کا حصہ بنایا جس کے باعث بعض مدارس کے اسٹوڈنس نے سی ایس ایس سمیت ایسے دیگر مشکل امتحانات میں پوزیشنیں بھی حاصل کیں۔ خیبرپختونخوا کا سماجی اور مسلکی ڈھانچہ دوسرے صوبوں سے کافی مختلف اور منفرد ہے اس لیے یہاں موجود مدارس کا مجموعی کردار اس کے باوجود بہت مثبت اور پرامن رہا کہ اس خطے خصوصاً قبائلی علاقوں کو برسوں سے انتہا پسندی کا سامنا رہا۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان مدارس کی ریاستی سرپرستی کی جانی چاہیے اور انہیں ایک مستقل پالیسی کے تحت حالیہ ایونٹ جیسی مزید ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لانا چاہئے

اس سے جہاں مدارس کے ہزاروں طلباء کی سماجی تربیت ہوگی وہاں یہ لوگ معاشرے کی بہتری اور امن کے قیام میں بھی مثبت کردار ادا کرسکیں گے۔ یہ ہمارے اپنے بچے ہیں اس لیے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی پر مبنی رویہ ہمارے ریاستی اور سیاسی اداروں کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket