پولیس پر لکی مروت میں ایک اور حملہ
عقیل یوسفزئی
تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ روز لکی مروت (پختون خوا) میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا جہاں موجود اہلکاروں نے سرکاری حکام کے مطابق اس حملے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تاہم مدد کے لیے ڈی ایس پی اقبال مہمند کی قیادت میں آنیوالی پارٹی کو راستے میں ماین (بارودی سرنگ) کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اقبال مہمند اپنے 4 ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے جبکہ اتنے ہی زخمی ہوئے.
لکی مروت ماضی میں باقی اضلاع کے مقابلے میں کافی پرامن علاقہ رہا ہے تاہم گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران یہاں تین چار بڑے حملے کئے گئے جس کے باعث عوام کو سخت تشویش کا سامنا ہے. اگر چہ پولیس ہی زیادہ نشانہ بنتی رہی ہے تاہم ایسے واقعات سے نظام زندگی کا متاثر ہونا فطری بات ہے.
اقبال مہمند کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھے افسر ہونے کے علاوہ ایک بہترین شاعر بھی تھے اور ان کا حلقہ احباب بھی کافی وسیع تھا اس لیے ان کی شہادت پر ہر طبقے کے لوگ رنجیدہ ہوگئے اور متعدد نے پشاور میں اس واقعے کے خلاف مظاہرہ بھی کیا.
ایک سروے کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پاک فوج اور پولیس پر تقریباً 11 حملے کئے گئے. اگر چہ لکی مروت حملے کے بغیر باقی میں جانی نقصان نہ ہونے کی برابر رہا تاہم اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ حالات کو کسی طور اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا.
مارچ ہی کے مہینے میں جنوبی وزیرستان میں بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی کو شہید کیا گیا جبکہ متعدد دوسرے علاقوں میں نایٹ وژن اسنایپر اٹیکس کئے گئے. یہ ہتھیار پولیس اور دیگر فورسز کے لیے کافی خطرناک ثابت ہوریے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے دو تین کلومیٹر سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے.
یہ بات قابل ستائش ہے کہ پشاور حملے اور لکی مروت واقعہ کے درمیانی مدت میں کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا بلکہ پلان کئے گئے متعدد حملے ناکام کئے گئے تاہم امن کی بحالی کیلئے لازمی ہے کہ سیکیورٹی کے چیلنجز سے جاری سیاسی کشیدگی کے باوجود لاتعلقی اختیار نہ کی جائے اور عوام بھی فورسز کے ساتھ تعاون کریں. مثال کے طور پر فورسز نے پشاور کو محفوظ بنانے کیلئے بعض علاقوں میں انٹری پاس کو ضروری قرار دیا تو بعض حلقوں نے اس پر اعتراض کیا حالانکہ ایسے اقدامات کا مقصد شہر کو محفوظ بنانا اور ٹریفک کے نظام کو آسان بنانا ہوتا ہے. ایسے میں لازمی ہے کہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے