پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز کا قیام اور اس کا پس منظر

پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز کا قیام اور اس کا پس منظر
عقیل یوسفزئی

سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں گزشتہ روز پشاور میں ایک تقریب کے دوران پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹرینز کے نام سے ایک نئی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ ان لیڈروں پر مشتمل ہے جو 9 اور 10 مئی کی شرپسندی کے عمرانی عمل کو پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف ایک منظم سازش سمجھتے ہیں.

اس پارٹی کے پہلے اجلاس کے بارے میں جو تفصیل سامنے آئی ہے اس کے مطابق اس میں سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور ان کی کابینہ کے 8 وزراء، مشیروں سمیت تقریباً 37 سابق ممبران قومی، صوبائی نے شرکت کی جبکہ پرویز خٹک نے دعویٰ کیا ہے کہ شرکت کرنے والے سابق ممبران اسمبلی کی تعداد 50 سے ذاید رہی ہے. بہرحال اگر یہ تعداد 37 بھی رہی ہے تو یہ بھی توقعات سے بڑھ کر ہے کیونکہ پارٹی ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اور کہا جارہا ہے کہ ایندہ چند روز میں مزید 20 سابق ممبران اس میں شامل ہوجایں گے.

اس موقع پر اپنے مختصر بیان میں پرویز خٹک نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف کی جارحانہ اور منفی طرز سیاست کے باعث ان کے ساتھ جمہوری اور پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین کرنے والے لیڈرز کا چلنا ناممکن ہوچکا تھا اس لیے الگ پارٹی قائم کی گئی. انہوں نے کہا کہ پختون خوا سے عمران خان کی زیر قیادت پارٹی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور نئ پارٹی اگلے الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لے گی. انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس میں مزید درجنوں لیڈرز شامل ہوں گے اور ان کے ساتھ بہت سے لیڈروں کے رابطے جاری ہیں.
اس بحث سے قطع نظر کہ اس نئ پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا اور اگلے الیکشن میں اس کی کارکردگی کیسی ہوگی تلخ حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں تحریک انصاف کے سنجیدہ لیڈرز کی اکثریت نے سابق وزیر اعظم کے سیاسی بیانیہ اور جارحانہ انداز کو مسترد کرتے ہوئے ان کو الوداع کہہ دیا ہے اور اب یہ صوبہ سابق وزیراعظم کا گڑھ یا مرکز نہیں رہا.
جس انداز میں سابق وزیراعظم نے اپنے عہدے داروں اور کارکنوں کو ریاست کے خلاف مزاحمت اور بغاوت پر آمادہ کرکے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی عملی کوشش کی ملک کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور اب ان کو اسی کا خمیازہ بگھتنا پڑ رہا ہے. اس وقت صرف خیبر پختون خوا میں توڑ پھوڑ کرنے والے کارکنوں اور عہدے داروں پر تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار مقدمات درج ہیں. اکثریت مفرور ہے تو سینکڑوں جیلوں میں قید ہیں جبکہ 40 کے قریب اتنے سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں کہ ان کا ملٹری کورٹس میں ٹرایل ہوگا. ایسے میں اگر ایک پرامن سیاسی عمل کے لیے ایک نئی پارٹی قائم کی گئی ہے تو یہ خوش آئند بات ہے کیونکہ پاکستان کے ہر شہری کو کسی بھی پارٹی کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket