گزشتہ روز تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی ریاست کے ساتھ جو جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے اس کو باقاعدہ طور پر ختم کرکے اپنے اہلکاروں کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ وہ جہاں بھی اور جس وقت چاہے حملے کر سکتے ہیں۔ ابھی سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحریک طالبان کی تعداد کتنی ہے اور پاکستان کے لیے یہ کتنا بڑا خطرہ ہے؟ ان کے لیے کیا چیزیں مثبت اور کیا منفی ہیں؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جو لیڈرشپ ہے یہاں سے دو تین سال پہلے کا ضرب عضب آپریشن کے بعد ان کو مؤثر طریقے سے پاکستان سے نکالا گیا جس میں پاکستان آرمی اور ملک کا کافی نقصان بھی ہوا لیکن ان کو ملک سے باہر نکال کر انہوں نے افغانستان میں پناہ لے لی۔
اس کے بعد یہ افغانستان میں رہے اورافغان طالبان کے ساتھ ملکرامریکہ اور دیگر کے خلاف لڑتے رہے اور پاکستان کے خلاف بھی اکا دکا کارروائیاں کرتے رہے۔ اگست 2021 میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو ان لوگوں کے لئے ایک اچھا موقع پیدا ہوا کیونکہ طالبان کے ساتھ ان کا تقریبا ً دس بیس سال کی رقابت رہی تھی ان کے ساتھ اکٹھے لڑے بھی تھے اور یہ طالبان کے ساتھ اکٹھے رہیں بھی ہیں اس لیے ان کو ایک پناہ ملی۔
افغانستان میں جب طالبان نے قطر میں دوھا ایگریمنٹ کیا تو اس میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر موجود عسکریت پسند دوسرے ممالک کے خلاف کارروائیاں نہیں کرینگے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک طالبان نے القاعدہ، آئی ایم یو، اے ٹی آئی ایم وغیرہ کو دوسرے ملکوں کے خلاف کارروائیوں سے تقریبا ًرو کے رکھا ہے۔ چین، ازبکستان یا القاعدہ جن کا ٹارگٹ امریکہ ہے کہیں پر بھی انہوں نے ابھی تک حملہ نہیں کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ افغانستان کی سرزمین سے کہیں پر بھی کاروائیاں نہ کریں لیکن ٹی ٹی پی کے جو عسکریت پسند ہیں وہ مسلسل جب سے طالبان آئے ہیں پاکستان میں کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور یہ ایک عجیب صورتحال ہے ۔
دوسری طرف ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ایک اچھی پناہ گاہ ملی ہے اور وہاں پر کچھ علماء نے جو طالبان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں پاکستان کے خلاف فتویٰ دیا ہے کہ وہ یہاں پر کارروائیاں کر سکتے ہیں اور یہ بھی رپورٹس آئی ہے کہ افغانی لوگ ٹی ٹی پی کے ہمراہ کارروائیاں کرتے ہوئے پکڑے بھی گئے ہیں۔
ابھی صورتحال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان کی صورت حال دیکھ کر اپنا لائحہ عمل اور پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے۔ انہوں نے پشتون نیشنلزم اور پاکستان میں امریکہ مخالف جزبات کا سہارا لے کر اینٹی پنجاب اور پاکستان آرمی کے خلاف خصوصاً پشتون قبائلی افراد کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کا جو نظریاتی ڈومین تھا اس سے ہٹ کر ایک الگ تنظیم کے طور پر خود کو متعارف کرایا۔ ساتھ ہی سیاست میں اس بیانیئے استعمال کیا جس کو زیادہ تر پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں استعمال کرتے ہیں۔
اگر جائزہ لیا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے وقت یہ طالبان کے لیے یہ ان کی قوت ہوگی لیکن ابھی ساتھ ہی ساتھ خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اور ریاستی پالیسیوں کے خلاف عوام نے احتجاجی ریلیاں نکالی اور یہ اتنے زیادہ شدت سے نکلیں کہ یہاں پر اب ٹی ٹی پی کے لیے کاروائیاں مشکل ہوگی جبکہ ٹی ٹی پی کیخلاف عام لوگوں میں غم و غصہ کافی پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف تحریک طالبان نے جو اپنے بیانیئے میں تبدیلی لائی ہے اس سے ٹی ٹی پی کو یہاں ریکروٹمنٹ کے عمل میں مشکلات ہوگی اور زیادہ ترانحصار اب افغانوں پر ہوگا کیونکہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کاروائیاں وہاں کئی دہائیوں سے چل رہی ہیں تو وہاں سے ریکروٹمنٹ ممکن ہو سکتی ہے۔
ایسی صورت حال میں تحریک طالبان پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والا خطرہ نہیں ہے کیونکہ خیبر پختونخواہ میں سیکورٹی فورسز اور پولیس انکے خلاف ایک مؤثر نیٹ ورک بنایا ہوا ہے جس سے یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ٹی ٹی پی ایک کمزور گروہ کے طور پر سامنے آئے گی اور پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔
اگرچہ پاک فوج ان کے خلاف سر گرم عمل ہے لیکن اس مسئلہ کو ایڈریس کرنے کے لئے پاکستان میں سیاسی طور پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ میرے خیال میں ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ سیاسی قیادت اس پر توجہ دے اور ان کے خلاف ایک بیانیہ بنائے تاکہ ان کا جو مذہبی بیانیہ ہے اس کو کاؤنٹر کرسکیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ ایک مؤثر انداز سے اس مسئلے کو حل کرنا پڑے گا کیونکہ طالبان نے اگر آئی ایم یو، القاعدہ کوڈالیوٹ کیا ہے تو ٹی ٹی پی کو کیوں نہیں کرسکتے۔ پاکستان نے ماضی میں افغان طالبان کے حق میں بہت کچھ کیا ہے لہٰذا اب اس کا صلہ دینا تو بنتا ہے اور طالبان کو مطمئن کرنا پڑے گا اور ان کے خلاف اگر سخت اقدامات لینے پڑے تو لینے چاہیے۔
دوسری اہم بات جو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں بے شک ہم غصہ پایا جاتا ہے لیکن بالآخر ٹی ٹی پی کی جو لیڈرشپ ہے وہ پاکستانی ہیں اور پاکستان اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلنا چاہیے کیونکہ اگر انکے خلاف کاروائیوں سے موثر کامیابی تو پھر ایک دو سال بعد دوبارہ مذاکرات کی طرف آنا پڑے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کو ابھی سے ہی جاری رکھنا چاہیے۔
ٹی ٹی پی کے حوالے سے یہ بھی ایک بات ہے کہ آج انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی ختم کی ہے لیکن کئی مہینوں سے ان کی کاروائیاں اور حملے کر ہو رہے تھے اور بنوں لکی مروت میں ان کے خلاف کارروائی کو بہانا بنا یا گیا اور انہوں نے معاہدہ ختم کیا اس سے پہلے بھی پشاور اور اسکے گردونواح میں سیکورٹی فورسز ، پولیس اور سیاسی اہلکاروں پر ان کے حملے ہوتے رہے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر قوم کو متحد کرنا پڑے گا اور یہ کام ہمارے سیاسی اور مذہبی قیادت کا ہے۔
