کی بورڈ وارئںیرز کے کارنامے

عقیل یوسفزئی

یہ تصور یا تاثر بے جا نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے بے لگام اور غیر ذمہ دارانہ استعمال نے نہ صرف اہل سیاست اور سنجیدہ عوام کو بے چین کرکے رکھدیا ہے بلکہ اب سیاسی مقاصد کے لیے قومی سلامتی کے اہم اداروں کو بھی اس صورت حال نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو کہ باعث تشویش ہے اور اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا اور اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے.

المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور نہ ہی متعلقہ سرکاری اداروں کو جاری صورتحال کے نتائج کا کوئی احساس ہے ورنہ دنیا کے متعدد جدید جمہوری ممالک میں اس طوفان کے آفٹر شاکس کو دیکھ کر نہ صرف بعض بنیادی شرائط کے ساتھ اس کے استعمال کو مشروط کیا گیا ہے بلکہ متعدد ممالک نے سخت پابندیاں بھی لگائی ہوئی ہیں.

ہفتہ رفتہ کے دوران ان کی بورڈ وارئںیرز نے اسی نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کور کمانڈر کویٹہ اور ان کی ٹیم کو پیش آنے والے ایک افسوسناک حادثے کو ایک مبینہ سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے پاکستان مخالف ممالک کے مین سٹریم میڈیا کو ان کا پسندیدہ موضوع فراہم کیا اور ان ممالک نے اسی بےحسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی منظم فوج کو اپنی پروپیگنڈہ مقاصد کے لیے کچھ اس طرح سے استعمال کیا کہ ملکی فورسز کو بدنام کرنے کی نت نئی مثالیں قائم ہوئی اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ فوج کے متعلقہ ادارے نے اس پروپیگنڈہ کا نوٹس لیتے ہوئے حادثے کے اسباب اور تفصیلات سے متعلق وضاحت پیش کی. تاہم اس دوران جو نقصان ہوچکا تھا اس کی تلافی ممکن نہیں رہی تھی.

اسی بے لگام مخلوق نے انہی دنوں کابل میں القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ہلاکت کو بھی اپنے یکطرفہ پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا اور سازشی نظریات کے فارمولے کی بنیاد پر کہنا شروع کیا کہ القاعدہ سربراہ کو جس ڈرون نے مبینہ طور پر کابل میں نشانہ بنایا ہے وہ پاکستان سے اڑا تھا یا یہ کہ اس کے لیے پاکستانی ایر سپیس استعمال کیا گیا تھا. حالانکہ امریکی متعلقہ اداروں کے علاوہ بعض دوسرے اہم ممالک کے میڈیا پر کھلے عام یہ کہا جارہا تھا کہ اس مبینہ حملے کے لئے قازقستان کی ایک بیس کو استعمال کیا گیا تھا.

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اس مسئلے پر مین سٹریم میڈیا کے بعض لوگوں نے بھی وہی بیانیہ استعمال کیا جو کہ کی بورڈ وارئںیرز نے اپنایا تھا.

اسی طرح اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ کے بعض دوست ممالک کے ساتھ کیے جانے والے ٹیلی فونک رابطوں کو بھی فوج اور حکومت کے خلاف حقائق کو سمجھے بغیر پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اس کے کونسے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں. تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جاری صورتحال اور رویہ نے نہ صرف ریاستی اداروں اور سنجیدہ سیاسی حلقوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ یہ سلسلہ عوام میں بھی بدترین بےچینی کا سبب بنتا جا رہا ہے. اگر اس کی روک تھام نہیں کی گئی اور کوئی کاونٹر اسٹریٹجی سامنے نہیں آئی تو اس کے نتائج پاکستان کی سلامتی، ساکھ اور مستقبل کے لئے دہشت گردی سے ذیادہ خطرناک ثابت ہوں گے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket