گومل میڈیکل کالج ڈیرہ اسماعیل خان میں “پیغام پاکستان”کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر ڈاکٹر افتخار نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ فروغ امن کے سلسلے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پہلی تقریب میڈیکل کالج میں منعقد کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر تمام معزز مہمانوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ڈاکٹر ارشد منیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 28مئی ہمارے لیے انتہائی فخر کا دن ہے اور پاکستان نے جو ہمت اور عزم کامظاہرہ کیا اسے دنیا بھر بالخصوص مسلم ممالک میں پذیرائی ملی مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ جذبہ مدھم ہوا ہے جس کا جواب “پیغام پاکستان “ہے۔ پاکستان جس نظریے پر قائم ہوا وہ آج بھی قائم ہے جس طرح مرض کی پہلے تشخیص کی جاتی ہے اس کے بعد علاج کیا جاتا ہے اسی طرح ایک دوسرے کے جذبات، خیالات، احساسات کو سمجھنے اور انکی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔
اسکے بعد یونیورسٹی آف ہری پور کے ڈاکٹر عبد المہیمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف ہونا قدرتی عمل ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ اسکو کس طرح دیکھا جائے، اختلاف کا احترام ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف یونیورسٹیز، مدارس، علماء،تبلیغ، حج، عمرہ، عاشورہ، ربیع الاول، مزارات،مختلف مکتبہ فکر رکھنے والے افراد، مختلف سیاسی رائے رکھنے والے افراد موجود ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی سوچ کو مثبت رکھا جائے جس طرح رواں برس تین عیدیں منائی گئیں کوشش ہوتی ہے کہ ایک دن عید ہو مگر اس سلسلے میں اختلاف کو مثبت رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ انتہا پسند مٹھی بھر ہیں ایک فیصد ہوں گے مگر باقی 99فیصد نے بہتر جذبات کا مظاہرہ کرنا ہے، بردباری کو بڑھاتے ہوئے تفریق کا خاتمہ کرنا ہے۔ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں بردباری کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔پاکستان کو پہلی ترجیح رکھیں کیونکہ جیسے گھر ہمارا ہے تو گلی بھی ہماری ہے اگر گاڑی ہماری ہے تو سڑکیں بھی ہماری ہیں ایک ریاست میں سیاسی اختلاف علیحدہ بات ہے مگر اداروں کا احترام ضروری ہے کیونکہ ان سے ملک نے چلنا ہے۔اس کے بعد خطاب کرتے ہوئے کوہاٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹر ذیشان نے کہا کہ انسان کو شکل و شباہت والدین اور خاندان سے ملتی ہے مگر سوچ ماحول سے ملتی ہے ہم تنقیدی ذہن کے مالک بن چکے ہیں جس سے بردباری بھی متاثر ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک دوسرے کے مذہب، رائے اور سو چ کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کرنل ناصر نے کہا کہ سوسائٹی اور کلچر کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے، ہر ملک کی ایک حدود ہوتی ہے مگر کلچر مختلف ہو سکتے ہیں، سوسائٹی کا سب سے چھوٹا یونٹ گھر ہوتا ہے جس طرح گھر میں ایک سربراہ ہوتا ہے جس کی بات سنی اور مانی جاتی ہے جس سے تمام رشتوں میں سلوک رہتا ہے ویسے ہی شہر، صوبہ اور پھر ملک بنتا ہے لہذا ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر خیبر پختونخوا سنٹر آف ایکسیلنس کے مسٹر کاشف ارشاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مختلف پہلو انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جیسے غربت انسان کو مجبور کر دیتی ہے، اسی طرح تحفظ بھی ہر کسی کی بنیادی ضرورت ہے جو کہ سٹیٹ فراہم کرتی ہے جبکہ تیسرا پہلو رویہ اور لین دین ہے جسے ہم نے بہتر رکھنا ہے تفریق کو فروغ نہیں دینا سیاست کیلئے ایک دوسرے کو نشانہ نہیں بناناکیونکہ سیاست کا مقصد تو قوم کو بہتر بنانا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امبیسیڈر (ریٹائرڈ) زاہد خان وزیر نے کہا کہ انسانوں کی محبت ہی دوسرے انسان کو اللہ تعالیٰ کی محبت تک لے جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں موجود حالیہ نفرت اور تفریق کے پیچھے تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ ہم دہشتگردی اور انتہا پسندی پر یقین نہیں رکھتے چونکہ ہم مضبوط قوم ہیں اور یہ بات دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔
ہمارے ادارے مضبوط ہیں ہماری فوج مضبوط ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، سپرٹ آف نیشن ہُڈ اور مضبوط فوج کسی بھی ملک کیلئے اثاثہ ہوتے ہیں۔ وسائل اپنی جگہ حیثیت رکھتے ہیں مگر کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جن پر حملے ہوئے وسائل سمیت ملکوں کو نقصان پہنچایا گیا اور وہاں کے لوگ مہاجرین بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ اعتراض ہمیشہ واپس آتا ہے کیونکہ جس کی تذلیل ہوتی ہے وہ بدلہ بھی لیتا ہے لہذا مثبت سو چ کر پروان چڑھانا چاہیے اور جس معاملے میں معلومات نہ ہوں وہاں خاموشی بھی بہترین حل ہے۔ تقریب کے اختتام پر ڈین گومل میڈیکل کالج ڈاکٹر نسیم صباء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ انتہائی مہمان نواز، خوش اخلاق، ہمدرد اور مثبت سوچ رکھنے والے ہیں۔ کورونا پنڈیمک کے دوران ملک کا سب سے پہلا کوارینٹائن سنٹر اسی کالج میں بنایا گیا اور یہاں آنے والے زائرین میں وائرس کے موجودگی کی اطلاعات کے باوجود ٹیکنیکل ٹیموں نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی اور اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت کیلئے پیش پیش رہے۔