Made in Pakistan – A trademark in making

There is a famous saying that “If we had no winters, the spring would not be so pleasant: If we did not sometimes taste of adversity, prosperity would not be so welcome”Though Corona has brought a greater crisis for the nations, it has also provided opportunities to those nations who are resilient and intelligent enough. The rapid spread of corona meant that every country has to cater for its need before giving outward. The crisis was therefore specifically harsh on countries, who were not self-sufficient in the production of essential medical equipment.

When the pandemic hit Pakistan, the virus spread at a rapid pace even more than what was predicted. The emergent situation exposed fragility and shallowness of our health care system bringing to light many grave problems. One of the major problem which Pakistan even now is facing is shortage of ventilators. Presently, hospitals have only 1503 ventilators countrywide for the treatment of COVID patients. Though government through NDMA has taken urgent steps to import necessary medical equipment including ventilator from generous countries such as china to cater for the shortage. However, long supply chain and lack of supply in international market emerged as a big challenge and therefore, Pakistan has not yet been able to complete its deficiency.

In the midst of all this, Federal Minister for science and technology Fawad Chaudhry came up with the idea to produce ventilators, masks, testing kits and other medical tools at domestic level. The idea at first seemed to be a political rhetoric, however, as a pleasant surprise, Pakistan has reached the milestone of developing indigenous ventilators.

These specifically, “Made in Pakistan Ventilators” are portable; they could be operational in ambulances and at homes. Their cost of production and sale price would be less than the market rates. Pakistan Engineers Council team has approved the European standardized manufacturing of these vents.

Federal ministry of science and technology in collaboration with the ministry of defence production initiated the production of ventilators and other electro-Mechanical medical based equipment in National Radio Telecommunication Corporation ( NRTC) and other defence production factories to boost the country’ capital goods. “Freight of twelve ventilators is currently ready to be handed over to National Disaster Management Authority, after which mass production would be started to make up the shortage of ventilators in country”, said Federal Minister Fawad Chaudhry.

The present government is the crown bearer for major development in starting indigenous industry in electro-mechanical medical equipment. Earlier, National University of Science and Technology has also manufactured the corona virus protective gear kits.

Engineers and scientist are being taken on-board to inspect and prepare the essentials against pandemic. They have also developed the oxygenators and testing machines. “We have devised and pilot tested the corona testing tool, that would be able to give results in forty-five minutes” said the Minister Fawad Chaudhry. “Pakistan earned Hundred million dollars through the exports of medical manufactured goods and soon ventilators would add more value to it”, he added.

The country’s best came out in the troubles as Napoleon Bonaparte stated, “It is in times of difficulty that great nations like great men display the whole energy of their character and become an object of admiration to posterity”.  One hope that this rapid pace of this indigenisation will continue and will also be replicated in other sectors to enable Pakistan to earn valuable revenue.

شمالی وزیرستان میں ایک اور کارروائی

شمالی وزیرستان کے علاقے بویا سے آٹھ کلومیٹر دور دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کی موجودگی کی اطلاعات پر پاک فوج کی کاروائی کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو مار کر ان کا ٹھکانہ تباہ کردیا جبکہ دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں چار سپاہی اسماعیل خان ،محمد شہباز ،وحیداللہ اور رضوان خان شہید ہوگئے ۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یہ کارروائی انٹیلی جنس کی مصدقہ اطلاعات کی روشنی میں کی گئی۔ جب فورسز وہاں پہنچی تو دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانوں سے اُن پر فائرنگ کی اور ہتھیار ڈالنے کی بجائے مقابلہ شروع کیا تاہم اس جھڑپ کے دوران 4 دہشت گردوں کو مار کر اُن کے ٹکانے کو تباہ کیا گیا اور آپریشن کے بعد علاقے کو کلیئر کرایا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران شمالی وزیرستان میں اس نوعیت کی تقریباً ایک درجن کارروائیاں کی گئی ہیں تاکہ جنگ زدہ وزیرستان کے دور آفتادہ علاقوں کو دہشت گردوں کی محدود موجودگی سے صاف کرایا جا سکے اور ان علاقوں کو بھی حکومتی رِٹ میں لایا جائےجہاں سرحد پار سے محدود پیمانے پر حملہ آوروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اور وہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اِن پہاڑی علاقوں کو بطور کمین گاہ استعمال کر رہے ہیں۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دو اضلاع ماضی میں پاکستانی طالبان اور غیر ملکی مسلح تنظیموں کے مراکز ر ہیں تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد اِن علاقوں کے عوام کو نہ صرف دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نجات دلائی گئی اور یہاں پر حکومتی رٹ بحال کی گئیں بلکہ علاقے میں سول ایڈمنسٹریشن کو بحال اور بااختیار بنا کر علاقے کی تعمیر نو پر خاصی توجہ دی گئی اور اب مجموعی صورتحال کافی بہتر ہے۔
چند روز قبل حکومت نے عوام کی معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے شمالی وزیرستان کی افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد یا کراسنگ پوائنٹ غلام خان کو تجارتی کاروبار کے لیے کھول دیا گیا جبکہ مقامی لوگوں کے آمدورفت کیلئےبھی اسے کھول دیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں جنوبی وزیرستان کے انگوراڈہ کو بھی عرصہ دراز کے بعد کھول دیا ہے اور اسی فیصلے کے تناظر میں ضلع کرم کی کراسنگ پوائنٹ خرلاچی کو بھی افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے کھول دیا گیا ۔
ماہرین کے مطابق غالباً انہی اقدامات کا نتیجہ ہیں کہ دہشت گردوں نے ان علاقوں کو پھر سے نشانہ بنانے کی کوشش شروع کر دی ہیں تاکہ عوام کے علاوہ دونوں حکومتوں اور تجارتی طبقے کو دباؤ میں لا کر خوفزدہ کیا جا سکے جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ان محدود طالبان سرگرمیوں ، موجودگی یا حملوں کی بنیادی وجہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال ہے جہاں طالبان کی سرگرمیوں اور حملوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ ریکارڈ ہوا ہے اور اس صورتحال سے وہ چند عناصر بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو کہ ان سرحدی علاقوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران جہاں ایک طرف سینکڑوں حملہ آوروں کو مارا جبکہ ہزاروں کو گرفتارکیا گیا وہاں ہزاروں افراد لمبی پاک افغان سرحد کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے افغانستان منتقل ہوگئے جو کہ موقع پاکر پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کرکے واپس چلے جاتے ہیں یا بعض دور آفتادہ علاقوں کو بطور پناہ گاہ استعمال کرتے ہیں ۔سیکیورٹی حکام کے مطابق شمالی وزیرستان کے 90 فیصد علاقوں کو کلیئر کرا کر حکومتی رِٹ میں لایا جا چکا ہے اور مزید اقدامات جاری ہیں۔ اسیے میں جب بھی عسکری اداروں کو بعض علاقوں میں حملہ آوروں کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہےتو کارروائیاں کی جاتی ہیں اور حالیہ کاروائی بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے ۔
حکومتی حکام کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت تمام قبائلی اضلاع کے مجموعی حالات نہ صرف پہلے کے مقابلے میں پر امن اور بہتر ہیں بلکہ ان علاقوں کی تعمیر نو ، دوبارہ آباد کاری اور ترقی پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جبکہ مقامی لوگوں کی معاشی اور کاروباری ترقی کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ سول اداروں کو فعال اور مضبوط بنانے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔