شمالی وزیرستان میں ایک اور کارروائی

شمالی وزیرستان کے علاقے بویا سے آٹھ کلومیٹر دور دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کی موجودگی کی اطلاعات پر پاک فوج کی کاروائی کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو مار کر ان کا ٹھکانہ تباہ کردیا جبکہ دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں چار سپاہی اسماعیل خان ،محمد شہباز ،وحیداللہ اور رضوان خان شہید ہوگئے ۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یہ کارروائی انٹیلی جنس کی مصدقہ اطلاعات کی روشنی میں کی گئی۔ جب فورسز وہاں پہنچی تو دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانوں سے اُن پر فائرنگ کی اور ہتھیار ڈالنے کی بجائے مقابلہ شروع کیا تاہم اس جھڑپ کے دوران 4 دہشت گردوں کو مار کر اُن کے ٹکانے کو تباہ کیا گیا اور آپریشن کے بعد علاقے کو کلیئر کرایا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران شمالی وزیرستان میں اس نوعیت کی تقریباً ایک درجن کارروائیاں کی گئی ہیں تاکہ جنگ زدہ وزیرستان کے دور آفتادہ علاقوں کو دہشت گردوں کی محدود موجودگی سے صاف کرایا جا سکے اور ان علاقوں کو بھی حکومتی رِٹ میں لایا جائےجہاں سرحد پار سے محدود پیمانے پر حملہ آوروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اور وہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اِن پہاڑی علاقوں کو بطور کمین گاہ استعمال کر رہے ہیں۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دو اضلاع ماضی میں پاکستانی طالبان اور غیر ملکی مسلح تنظیموں کے مراکز ر ہیں تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد اِن علاقوں کے عوام کو نہ صرف دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نجات دلائی گئی اور یہاں پر حکومتی رٹ بحال کی گئیں بلکہ علاقے میں سول ایڈمنسٹریشن کو بحال اور بااختیار بنا کر علاقے کی تعمیر نو پر خاصی توجہ دی گئی اور اب مجموعی صورتحال کافی بہتر ہے۔
چند روز قبل حکومت نے عوام کی معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے شمالی وزیرستان کی افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد یا کراسنگ پوائنٹ غلام خان کو تجارتی کاروبار کے لیے کھول دیا گیا جبکہ مقامی لوگوں کے آمدورفت کیلئےبھی اسے کھول دیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں جنوبی وزیرستان کے انگوراڈہ کو بھی عرصہ دراز کے بعد کھول دیا ہے اور اسی فیصلے کے تناظر میں ضلع کرم کی کراسنگ پوائنٹ خرلاچی کو بھی افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے کھول دیا گیا ۔
ماہرین کے مطابق غالباً انہی اقدامات کا نتیجہ ہیں کہ دہشت گردوں نے ان علاقوں کو پھر سے نشانہ بنانے کی کوشش شروع کر دی ہیں تاکہ عوام کے علاوہ دونوں حکومتوں اور تجارتی طبقے کو دباؤ میں لا کر خوفزدہ کیا جا سکے جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ان محدود طالبان سرگرمیوں ، موجودگی یا حملوں کی بنیادی وجہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال ہے جہاں طالبان کی سرگرمیوں اور حملوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ ریکارڈ ہوا ہے اور اس صورتحال سے وہ چند عناصر بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو کہ ان سرحدی علاقوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران جہاں ایک طرف سینکڑوں حملہ آوروں کو مارا جبکہ ہزاروں کو گرفتارکیا گیا وہاں ہزاروں افراد لمبی پاک افغان سرحد کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے افغانستان منتقل ہوگئے جو کہ موقع پاکر پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کرکے واپس چلے جاتے ہیں یا بعض دور آفتادہ علاقوں کو بطور پناہ گاہ استعمال کرتے ہیں ۔سیکیورٹی حکام کے مطابق شمالی وزیرستان کے 90 فیصد علاقوں کو کلیئر کرا کر حکومتی رِٹ میں لایا جا چکا ہے اور مزید اقدامات جاری ہیں۔ اسیے میں جب بھی عسکری اداروں کو بعض علاقوں میں حملہ آوروں کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہےتو کارروائیاں کی جاتی ہیں اور حالیہ کاروائی بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے ۔
حکومتی حکام کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت تمام قبائلی اضلاع کے مجموعی حالات نہ صرف پہلے کے مقابلے میں پر امن اور بہتر ہیں بلکہ ان علاقوں کی تعمیر نو ، دوبارہ آباد کاری اور ترقی پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جبکہ مقامی لوگوں کی معاشی اور کاروباری ترقی کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ سول اداروں کو فعال اور مضبوط بنانے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket