کورونا اور پولیو کے خاتمے سے متعلق اچھی خبر یں
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں کورونا کیسز کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے ویکسینیشن کی عام اور بروقت فراہمی ہے جبکہ دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ ملک میں پولیو کیسز کی تعداد بھی عملاً نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور پختونخوا میں انکار ی والدین کی تعداد میں بھی رواں برس غیر معمولی کمی واقع ہوگئی ہے۔ حکومت کے لیے اس وقت صحت کے شعبے میں ڈینگی کا ایشو ایک چیلنج بنا ہوا ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومتی حکام کے مطابق اقدام کئے جا رہے ہیں۔
جہاں تک کورونا بحران یا کیسز کا تعلق ہے سال 2020 کے دوران پشاور مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست رہا جبکہ صوبے کے دیگر شہروں کی حالت بھی دگردوں رہی۔ ڈیٹا کے مطابق صرف پشاور میں پانچ ہزار کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تاہم حکومت نے عالمی اداروں کی مدد سے جس تیزی کے ساتھ پشاور سمیت پورے صوبے میں ویکسینیشن کا پراسس شروع کیا اور جس سہولت سے ہر شخص کو یہ ضرورت مہیا کی گئی اس کے باعث کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آنا شروع ہو گئی۔ دوسری طرف بعض ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے جن میں ایل آر ایچ سرفہرست رہا جہاں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔ اسی طرح ضلعی انتظامیہ اور میڈیا کی آگاہی مہمات نے بھی شعور بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیسز کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی اور حالت زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئے۔
محدود وسائل اور بعض سماجی رکاوٹوں کے باوجود ویکسینیشن کی مدد میں پختونخوا کے لیے دو کروڑ پچاس لاکھ کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ ان میں ایک کروڑ دس لاکھ افراد کو ویکسینیشن کی پہلی جبکہ ساٹھ لاکھ ستر ہزار شہریوں کو دوسری ڈوز یا خوراک دی جا چکی ہے۔ حکومتی ڈیٹا کے مطابق 20اکتوبر تک صوبے کے تقریبا 40 فیصد شہریوں کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے جو کہ کافی حوصلہ افزا ءہے۔ صوبے میں ویکسینیشن کے دس ہزار مراکز قائم کیے گئے جبکہ بس اسٹاپوں اور دیگر مقامات پر موبائل ٹیمیں بھی فراہم کی گئیں۔ اسی طرح بعض دوسرے اقدامات بھی کیے گئے اور مزید جاری ہیں۔
ایک اور حکومتی رپورٹ کے مطابق عرصہ دراز کے بعد پہلی دفعہ یہ امکان پیدا ہو چکا ہے کہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے دنیا میں پاکستان اور افغانستان وہ دو ایسے ممالک رہ گئے ہیں جہاں سے پولیو کا خاتمہ کرنا باقی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس پولیو کیسز کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہوگئی ہے اور اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں اب پہلی والی تعداد اور صورتحال باقی نہیں رہی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 9ماہ کے دوران ملک میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ 2021 کے دوسرے مہینہ کے دوران ملک میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا جو کہ بلوچستان میں سامنے آیا تھا حالانکہ 2021 سے قبل سب سے زیادہ کیسز کا مرکز پختونخواہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں 82 کیسز جبکہ 2019 میں 147 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ 2020 کے دوران پولیو کیسز کی تعداد 22، بلوچستان میں 24، سندھ میں22، سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں یہ تعداد محض 14 رہی ۔ اب کے بار کہا جا رہا ہے کہ کووڈ 19 کے باوجود ملک بھر میں انسداد پولیو کی مہم چلائی گئی جبکہ انکاری والدین کی تعداد میں بھی حیرت انگیز طور پر کمی واقع ہو گئی۔
بعض متعلقہ حلقوں کا کہنا ہے کہ عالمی دباؤ اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ کی مسلسل رابطہ کاری اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی نے پولیو میں غیرمعمولی کمی کو ممکن بنایا حالانکہ انسداد پولیو کے ساتھ وابستہ بعض اداروں اور افسران کی کارکردگی اس تمام عرصہ کے دوران محض فنڈز کے بے جا استعمال، سیر سپاٹوں اور اپنوں کو نوازنے تک محدود رہی جس پر بعض اہم عہدیداران کے خلاف ادارہ جاتی کاروائیاں بھی ہوئیں اور اختیارات ، فنڈز کے غیر قانونی استعمال کی شکایات بھی مسلسل سامنے آتی رہیں۔
پولیو کا خاتمہ پاکستان کی نئی نسل کو بچانے کے علاوہ ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے بھی لازمی ہے۔ تاہم اس کے لیے لازمی ہے کہ جو بعض عناصر اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود انسداد پولیو کی بجائے فروغ پولیو کی جن سرگرمیوں اور عیاشیوں میں ملوث رہے ہیں یا اب بھی ایسا کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کی سخت مانیٹرنگ کر کے محاسبہ کیا جائے کیونکہ ان کو پولیو کی موجودگی سے بڑے فوائد حاصل ہیں۔
اس ضمن میں ہمیں ان تمام میڈیکل ورکرز خصوصاً نرسز اور پولیس اہلکاروں کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے جنہوں نے اس مشکل ٹاسک کے دوران نہ صرف بہت کم اجرت پر خدمات سرانجام دیں بلکہ پچاس سے زائد نے جانوں کی قربانیاں بھی دیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ،افغان طالبان کا کردار
تحریر حیات اللہ محسود
15اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستانی حکام نے مطلوب ترین شدت پسندوں کی ایک فہرست طالبان قیادت کے حوالے کی اور ان کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے اس مطالبے پر طالبان قیادت کی طرف سے ایک تجویز دی گئی کہ پاکستانی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ دیگر گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ مذاکرات میں افغان طالبان نے ثالث کا کردار ادا کرنے کی تجویز بھی دی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے پاکستان حکومت نے باقاعدہ طور پر مذاکرات کا عمل شروع کر دیا اور افغان طالبان کو مذاکرات کے عمل میں ثالث کے کردار ادا کرنےپر اتفاق کیا ۔اب تک مذاکرات کے عمل میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی اور زرائع کے مطابق اس حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان کئی نشستیں ہوئی اور بالاخر حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے گزشتہ دنوں باقاعدہ طور پر اس بات کی تصدیق کی گئی ۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات قانون اور آئین کے دائرے میں ہوںگے اورحکومت کسی کے ساتھ بھی دائمی جنگ نہیں چاہتی ہے ۔اس جنگ میں سب سے ذیادہ زخم پاک آرمی نے کھائے اور قبائلی عوام کو بھی اس جنگ کی وجہ سے کافی نقصان کا سامنا رہا ۔مذاکرات کے عمل میں مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا ہے
جبکہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان خراسانی نے بھی گزشتہ دنوں نامعلوم مقام سے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان چونکہ پاکستانی قوم سے ہی بنی ایک اسلامی جہادی تحریک ہے، اس لیئے وہ ہمیشہ دیگر اہم مسائل کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھتی ہے ـ یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسکا انکار نہیں کرسکتی، لہذا تحریک طالبان پاکستان ایسے مذاکرات کیلئے تیار ہے جس سے ملک بھر میں دیرپا امن قائم ہوسکے اور ہمارے پاکستانیوں کو ایک طرف امن کی بہاریں میسر ہوں اور دوسری طرف پاکستان کے حصول کا مقصد بھی حاصل ہوسکے ۔اعلامیہ میں انھوں نے مذاکرات کے نکات کو بھی واضح کیا تھا جس میں انھوں نے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے ایک ماہ کے لیے فائربندی کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور ضرورت پڑھنے پر فائربندی کے عمل کو مزید بڑھانے کا اعلان بھی کیا ۔خراسانی کے مطابق مذاکرات میں امارت اسلامی افغانستان ثالث کا کر دادر ادا کررہا ہے ۔
جبکہ دوسری جانب پاکستان پیلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹوں زرداری نے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ہم ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیسے کر سکتے ہے جنہوں نے ہمارے آرمی کے جوانوں اور بچوں کو شہید کیا اور ہمارے عوامی لیڈر کو شہید کیا ۔بلاول بھٹو کی اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل سے ناخوش ہیں کیونکہ انکی والدہ پیپلز پارٹی کی چیرمین بے نظیر بھٹو پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
بے نظیر قتل کیس کاذکر باقاعدہ طور پر کالعدم تحریک طالبان کے امیر مفتی نورولی نے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا جس میں حملے کی منصوبہ بندی سمیت حملے میں ملوث اہلکاروں کے ناموں کا ذکر بھی کیا تھا ۔شاید یہی وجہ ہو کہ بلاول بھٹو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حامی نہ ہوں ۔مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت نے بھی اور کالعدم تحریک طالبان نے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ کالعدم تحریک طالبان کے امیر مفتی نور ولی نے باقاعدہ طور پر اپنے جنگجووں کو فائربندی کا حکم نامہ بھی جاری کر دیا جو کہ سوشل میڈیاپر بھی گردش کر رہا ہے ۔ زرائع کیمطابق کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والے جماعت الاحرار سمیت دیگر کئی تنظیموں کے ذمہ داران مذاکرات کے اس عمل سے خوش دیکھائی نہیں دے رہے اور کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔اسی طرح داعش بھی کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے جس کی ایک کڑی گزشتہ دنوں باجوڑ میں پولیس فورس پر حملہ ہے جس میں دو پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی ۔
مذاکرات کی باتیں میڈیا پر آنے کے بعد قبائلی اضلاع اور بالخصوص جنوبی وزیرستان جو کہ اپریشن سے پہلے ٹی ٹی پی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا یہاں پر بھی مختلف رائے سامنے آ رہی ہے کچھ لوگ مذاکرات کی کامیابی کے خواہاں ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ اگر امریکہ افغان طالبانوں کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے تو پاکستان پاکستانی طالبانوں کے ساتھ اگر مذاکرات کریں تو ان میں کیا حرج ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ کچھ لوگ مذاکرات پر یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ اگر حکومت نے مذاکرات کرنے تھے تو یہ پہلے کیوں نہیں کئے اگر پہلے کرتے تو اتنے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنا ان تمام قربانیوں اور نقصانات پر پانی پھیرنا ہے جوکہ ٹی ٹی پی کیخلاف جنگ میں حکومت اور قبائلی عوام نے دی ہیں ۔
مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے افغان طالبان کیا کردار ادا کریں گے آیا وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان سے ملک بدر کرینگے یا پھر انکی پشت پر کھڑے ہوکر پاکستان کے ساتھ دشمنی مول لیں گے اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن کابل میں موجود پاکستانی سفیر نے اس حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ اگر حکومت پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے تو مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے افغان طالبان ان کے خلاف آپریشن کریں گے لیکن دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کی تردید کی ۔اسکے ساتھ ساتھ طالبان زرائع کا دعویٰ ہے کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان طالبان نے اس شرط پر مذاکرات کے لیے راضی کیا کہ اگر پاکستانی حکومت نے مذاکرات کے عمل میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑے ہونگے ۔