Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

کورونا اور پولیو کے خاتمے سے متعلق اچھی خبر یں

یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں کورونا کیسز کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے ویکسینیشن کی عام اور بروقت فراہمی ہے جبکہ دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ ملک میں پولیو کیسز کی تعداد بھی عملاً نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور پختونخوا میں انکار ی والدین کی تعداد میں بھی رواں برس غیر معمولی کمی واقع ہوگئی ہے۔ حکومت کے لیے اس وقت صحت کے شعبے میں ڈینگی کا ایشو ایک چیلنج بنا ہوا ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومتی حکام کے مطابق اقدام کئے جا رہے ہیں۔
جہاں تک کورونا بحران یا کیسز کا تعلق ہے سال 2020 کے دوران پشاور مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست رہا جبکہ صوبے کے دیگر شہروں کی حالت بھی دگردوں رہی۔ ڈیٹا کے مطابق صرف پشاور میں پانچ ہزار کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تاہم حکومت نے عالمی اداروں کی مدد سے جس تیزی کے ساتھ پشاور سمیت پورے صوبے میں ویکسینیشن کا پراسس شروع کیا اور جس سہولت سے ہر شخص کو یہ ضرورت مہیا کی گئی اس کے باعث کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آنا شروع ہو گئی۔ دوسری طرف بعض ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے جن میں ایل آر ایچ سرفہرست رہا جہاں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔ اسی طرح ضلعی انتظامیہ اور میڈیا کی آگاہی مہمات نے بھی شعور بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیسز کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی اور حالت زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئے۔
محدود وسائل اور بعض سماجی رکاوٹوں کے باوجود ویکسینیشن کی مدد میں پختونخوا کے لیے دو کروڑ پچاس لاکھ کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ ان میں ایک کروڑ دس لاکھ افراد کو ویکسینیشن کی پہلی جبکہ ساٹھ لاکھ ستر ہزار شہریوں کو دوسری ڈوز یا خوراک دی جا چکی ہے۔ حکومتی ڈیٹا کے مطابق 20اکتوبر تک صوبے کے تقریبا 40 فیصد شہریوں کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے جو کہ کافی حوصلہ افزا ءہے۔ صوبے میں ویکسینیشن کے دس ہزار مراکز قائم کیے گئے جبکہ بس اسٹاپوں اور دیگر مقامات پر موبائل ٹیمیں بھی فراہم کی گئیں۔ اسی طرح بعض دوسرے اقدامات بھی کیے گئے اور مزید جاری ہیں۔

ایک اور حکومتی رپورٹ کے مطابق عرصہ دراز کے بعد پہلی دفعہ یہ امکان پیدا ہو چکا ہے کہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے دنیا میں پاکستان اور افغانستان وہ دو ایسے ممالک رہ گئے ہیں جہاں سے پولیو کا خاتمہ کرنا باقی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس پولیو کیسز کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہوگئی ہے اور اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں اب پہلی والی تعداد اور صورتحال باقی نہیں رہی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 9ماہ کے دوران ملک میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ 2021 کے دوسرے مہینہ کے دوران ملک میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا جو کہ بلوچستان میں سامنے آیا تھا حالانکہ 2021 سے قبل سب سے زیادہ کیسز کا مرکز پختونخواہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں 82 کیسز جبکہ 2019 میں 147 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ 2020 کے دوران پولیو کیسز کی تعداد 22، بلوچستان میں 24، سندھ میں22، سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں یہ تعداد محض 14 رہی ۔ اب کے بار کہا جا رہا ہے کہ کووڈ 19 کے باوجود ملک بھر میں انسداد پولیو کی مہم چلائی گئی جبکہ انکاری والدین کی تعداد میں بھی حیرت انگیز طور پر کمی واقع ہو گئی۔
بعض متعلقہ حلقوں کا کہنا ہے کہ عالمی دباؤ اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ کی مسلسل رابطہ کاری اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی نے پولیو میں غیرمعمولی کمی کو ممکن بنایا حالانکہ انسداد پولیو کے ساتھ وابستہ بعض اداروں اور افسران کی کارکردگی اس تمام عرصہ کے دوران محض فنڈز کے بے جا استعمال، سیر سپاٹوں اور اپنوں کو نوازنے تک محدود رہی جس پر بعض اہم عہدیداران کے خلاف ادارہ جاتی کاروائیاں بھی ہوئیں اور اختیارات ، فنڈز کے غیر قانونی استعمال کی شکایات بھی مسلسل سامنے آتی رہیں۔
پولیو کا خاتمہ پاکستان کی نئی نسل کو بچانے کے علاوہ ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے بھی لازمی ہے۔ تاہم اس کے لیے لازمی ہے کہ جو بعض عناصر اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود انسداد پولیو کی بجائے فروغ پولیو کی جن سرگرمیوں اور عیاشیوں میں ملوث رہے ہیں یا اب بھی ایسا کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کی سخت مانیٹرنگ کر کے محاسبہ کیا جائے کیونکہ ان کو پولیو کی موجودگی سے بڑے فوائد حاصل ہیں۔
اس ضمن میں ہمیں ان تمام میڈیکل ورکرز خصوصاً نرسز اور پولیس اہلکاروں کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے جنہوں نے اس مشکل ٹاسک کے دوران نہ صرف بہت کم اجرت پر خدمات سرانجام دیں بلکہ پچاس سے زائد نے جانوں کی قربانیاں بھی دیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket