عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں خصوصاً قبائلی اضلاع میں کچھ عرصہ سے جھاں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہاں بعض مقامی حلقوں یا گروپوں کی جانب سے خواتین کے بنیادی حقوق کی پامالی پر مبنی اعلانات اور اقدامات کا سلسلہ بھی جاری ہے. متعدد قبائلی علاقوں کے علاوہ پشاور میں بھی سرکاری اہلکاروں، سیاسی کارکنوں اور بعض دیگر طبقوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا. متعدد حملہ آوروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار بھی کیا. بعض حملوں میں داعش اور بعض دیگر ان کالعدم گروپ ان واقعات میں ملوث پائے گئے جو کہ مذاکرات کی ایک جاری عمل کی بوجوہ مخالفت کررہے ہیں جبکہ بعض واقعات میں ذاتی اور کاروباری دشمنیوں کے شواہد ملے ہیں. اسباب جو بھی ہو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے دوسروں کے علاوہ سیکورٹی فورسز کو بھی پریشان کر کے رکھدیا ہے کیونکہ ایسے واقعات کا نہ صرف یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کے اپنے اہلکار اس کا نشانہ بنتے ارہے ہیں بلکہ بعض مخصوص لوگ حقائق جانے بغیر کبھی کبھار اداروں پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں جس سے مزید بدگمانی پھیلتی ہے. کچھ عرصہ قبل جنوبی وزیرستان میں 4 دوستوں کو ایسے ہی ایک حملے کا نشانہ بنایا گیا جس پر سخت عوامی اور سیاسی ردعمل سامنے آیا. بعض سیاسی حلقوں نے اس کی ذمہ داری اس کالعدم تنظیم پر ڈال دی جو کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتی آرہی ہے تاہم چند روز قبل اس تنظیم نے نہ صرف اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اس کی کھل کر مذمت بھی کی اور اس عزم کا ایک بیان میں اظہار بھی کیا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرے گی. یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ ایسی قوتیں اس قسم کے واقعات میں ملوث ہیں جو کہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں. ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہورہا اس سے قبل بھی متعدد بار ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور مزید بھی ہوگی اس لیے عوامی اور سیاسی حلقوں کو اس ضمن میں ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور ساز شی تھیوریز سے ہوشیار رہنا چاہیے.
گزشتہ روز ایک قبائلی علاقے میں ایک مذہبی پارٹی کے ایک مقامی لیڈر کو بھی نشانہ بنایا گیا. اس سے قبل بھی اس پارٹی کے متعدد دوسرے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے. اس کا سبب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ بھی پیس اسپایلرز کا کام ہے کیونکہ مذکورہ پارٹی نہ صرف جاری مذاکراتی عمل کو سپورٹ کررہی ہے بلکہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کی حمایت بھی کررہی ہے اور اس پر ہونے والے ایسے حملوں میں وہ گروپ یا گروپس شامل ہیں جو کہ افغانستان میں بھی حملے کرتے آ رہے ہیں. یاد رہے کہ سال 2013 کے دوران جب نواز شریف حکومت نے ایسے ہی مذاکراتی عمل کا آغاز کیا تو اس وقت بھی ایسے ہی حملے کرائے گئے تھے جن میں پشاور کے کوہاٹی چرچ کا حملہ بھی شامل تھا.
دوسری طرف باجوڑ، وزیرستان اور بعض دیگر علاقوں میں بعض مذہبی حلقوں نے خواتین کے باہر نکلنے، ان کی شاپنگ کرنے اور ملازمت کرنے کو اسلام مخالف رویہ قرار دے کر غیر نمایندہ نام ونھاد جرگوں کی آڑ میں مختلف نوعیت کی دھمکیاں دی ہیں جبکہ بعض علاقوں میں شیو کرنے کی ممانعت بھی سامنے آئی ہے. اس قسم کی حرکتیں بھی کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئی ہیں. تاہم اس قسم کے لوگوں کا راستہ روکنا ریاستی، سیاسی اور سماجی سطح پر اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے آئین میں خواتین کے حقوق کا مکمل تحفظ موجود ہے اور اس پر ان جید علماء کے دستخط بھی موجود ہیں جو کہ ایک مضبوط مذہبی پس منظر رکھتے ہیں. پاکستان میں اکیسویں صدی کے دوران اس قسم کے رویے نہ صرف یہ ہے کہ سماجی سطح پر ناقابل برداشت ہیں بلکہ یہ ایک اسلامی مملکت کے متفقہ آئین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے. مذہبی رہنماؤں اور قایدین کو اس قسم کی سرگرمیوں اور اقدامات کا نہ صرف راستہ روک دینا چاہیے بلکہ اپنے زیرِ اثر مذہبی حلقوں کو سمجھا نا بھی چاہیے کیونکہ ایسے عناصر جھاں ایک طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں وہاں وہ اپنے تنگ نظر بیانیہ کی بنیاد پر اسلام کی غلط تشریح بھی کرتے ہیں. ایک اور مسئلہ بھی حل طلب ہے اور وہ یہ کہ پختون خوا میں بزنس کمیونٹی اور صاحب ثروت لوگوں سے تاوان یا بھتہ وصولی کا سلسلہ بھی جاری ہے. اس مسئلے کا بھی فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے تاکہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور بے چینی کا راستہ روکا جاسکے.
پاکستانی سیاست پر گہرے ہوتے نسلی و لسانی عصبیت کے سائے
اپنی آزادی کے بعد سے ہی پاکستان اپنے کمزور سیاسی ڈھانچے کی بنا پر بہت سارے مسائل کا شکار ہے ۔بہت سارے مسائل کا شکار رہا ہے ان میں سے چند ایک ایسے ہیں جو کہ اس کمزور سیاسی ڈھانچے کی پیداوار ہیں جبکہ دیگر وہ ہیں جو کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی اس خطے میں اپنا وجود رکھتے تھے مگر کمزور سیاسی ڈھانچے کی بدولت وہ مسائل گمبھیر سے گھمبیر تر ہوتے چلے گئے ۔
انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ سیاسی بنیادوں پر نسلی و لسانی عصبیت اور اس سے منسلک تشدد کا ہے ۔پاکستان میں کبھی پختونستان کا نعرہ بلند ہوا ، کبھی سندھو دیش کا ،کبھی مہاجر قوم نے اپنی آزادی کی آواز اٹھائیں تو کبھی بلوچستان میں شورش برپا ہوئی ۔ان تمام مسائل کے پیچھے جہاں پاکستان کے اندرونی سیاسی ڈھانچے کا ہاتھ ہے وہی بیرونی قوتوں کی مداخلت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو 1950 کی دہائی میں شروع ہونے والی یہ نسلی و لسانی عصبیت 1970 کی دہائی تک مسلح جتھوں اور ان کے ریاست کے ساتھ تصادم کی صورت اختیار کر چکی تھی ۔
ریاست کو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے اور ان جھتوں جنہیں پاکستان کے دشمن ممالک کی مدد حاصل رہی، کو کچلنے کے لئے ایک فوجی راستہ اختیار کرنا پڑا ۔کسی بھی ملک میں تہذیبی تفاوت کو اس ملک کی خوبصورتی اور مضبوطی سے تشبیہ دی جاتی ہے مگر پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس نکلا کیونکہ یہاں بیشتر ایک دوسرے کے تمدن سے ناواقف تھے اور نسلی و لسانی عصبیت کا شکار علاقوں کا ڈھنگ کا سماجی ڈھانچا قبائلی رسم و رواج کے ماتحت تھا۔
اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کس صوبہ خیبر پختونخوا ماضی میں نسلی و لسانی عصبیت کا بری طرح شکار رہا اور یہاں پختونستان کا نعرہ بلند ہوتا رہا مگرجب افغانستان کے حالات اور داخلی انتشار نے لوگوں کو ملک کے دیگر حصوں خصوصاً صوبہ سندھ اور کراچی کی جانب روزگار کی تلاش کیلئے روانہ کیا تو آہستہ آہستہ ایک نئی سماجی حقیقت نے جنم لیا اور پختونستان کا نعرہ دب کے رہ گیا اور اب وہی قوم پرست جو نسلی و لسانی بنیاد پر الگ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے پاکستان کے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر اپنے حقوق کے لیے پاکستان کے آئین کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں۔آج کراچی میںپشاور سے زیادہ پشتون شہری آباد ہیں جو کہ کراچی اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
اسی طرح ہمیں بلوچستان کی سیاست میں بھی اسی نسلی اور لسانی عصبیت کا رنگ والا دکھائی دیتا ہے مگر یہاں معاملہ اس لیے مختلف ہے ۔پاکستان کے بیرونی دشمن پاکستان کے بیرونی دشمن بلوچ جو کہ پاکستان کی آبادی کا صرف چار فیصد ہیں ، کے چند لوگوں کو گمراہ کر کے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور شورش برپا کرنے پر آمادہ کیے ہوئے ہیں ۔ بلوچستان کی عدم ترقی کی وجہ وہاں کا سرداری نظام ہے مزید یہ کہ صوبے کا بہت بڑا رقبہ ہے جہاں ایک چھوٹی سی آبادی دور دراز کے شہروں اور قصبوں میں پھیلی ہوئی ہے سوائے کوئٹہ کے کوئی بڑا شہر نہیں ہے ۔
اگر ہم صوبہ سندھ کی بات کریں تو اس وقت پاکستان کی سیاسی منظر نامے پر سب سے زیادہ مختلف نسل اور زبان کے لوگ کراچی میں آباد ہیں جن میں سندھی پختون بلوچ اور مہاجر وغیرہ شامل ہیں ۔یہ لوگ سندھی، اردو ،پشتون زبان بولتے ہیں ۔اسی وجہ سے صوبہ سندھ کی سیاست میں ہمیں نسلی و لسانی عصبیت کی جھلک سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور اکثر اوقات یہی عصبیت پر تشدد واقعات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہے ۔
جنہیں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کے تحت مخصوص رنگ دینے سے گریز نہیں کرتیں۔حال ہی میں کراچی میں ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا ۔جس میں ایک شخص کے قتل کی وجہ سے بہت سارے لوگوں وہ اذیت اٹھانا پڑی ۔مرنے والے کا تعلق پاک سرزمین پارٹی سے تھا جو کہ اپنے آپ کو مہاجر قوم کی نمائندہ پارٹی کہتی ہے جبکہ قتل کا الزام ایک پشتون باشندے پر ہے جو کہ ایک ریسٹورینٹ چلاتا ہے اس واقعے کے بعد دونوں جانب سے اس کو لسانی رنگ دیا گیا اور سندھی اور پشتون جتھوں نے ایک دوسرے کے روزگارجیسا کہ ڈھابے اور چائے کے کھوکھے وغیرہ پر حملے شروع کر دیئے ۔
ایسے موقع پر بدقسمتی سے ایسے موقع پر بجائے اس کے کہ سیاسی قیادت آگے آئے اور معاملے کو افہام و تفہیم اور سلیقے سے حل کرے ہر سیاسی جماعت اس واقعہ میں مزید شدت میں اضافہ کرتی ہے ۔اور اس سے قوم پرستوں کو پوری ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے ایسی صورتحال میں امن و امان کے ذمہ دار ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد از جلد معاملے کو حتمی انجام تک پہنچا کر مجرم کو قرار واقعی سزا دلوائی مگر بدقسمتی سے پاکستان کی پولیس اور عدلیہ دونوں ہی اس معاملے میں مکمل کام ثابت نہیں ہے۔ پاکستان ماضی میں اپنے کم وسائل اور سلامتی کے بڑے منصوبوں کی بدولت سماجی دھارے میں موجود اس نسلی و لسانی عصبیت پر توجہ مرکوز نہیں کر سکا۔ پاکستان میں جہاں پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملک کے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے سیاسی بنیادوں پر نسلی و لسانی تشدد کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں کیونکہ ایسا کرنا ملک دشمنی کرنا ہے!
ملک میں 24 گھنٹوں کے دوران کورونا سے 5 افراد جانبحق
ملک میں کورونا کے وار جاری ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران وائرس سے مزید 5 افراد جانبحق۔ قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 20 ہزار 361 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 492 افراد میں سے کورونا کے مثبت کیسز ریکارڈ ہوئے۔
این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران عالمی وبا سے مزید 5 افراد جاں بحق ہوئے اور کورونا مثبت کیسز کی شرح 2.24 رہی۔ قومی ادارہ برائے صحت کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک میں کورونا وائرس کے شکار 169 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
COVID-19 Statistics 18 July 2022
Total Tests in Last 24 Hours: 20,361
Positive Cases: 492
Positivity %: 2.42%
Deaths: 05
Patients on Critical Care: 169— NIH Pakistan (@NIH_Pakistan) July 18, 2022
کوئٹہ:سی ٹی ڈی کی کارروائی، مبینہ دہشت گرد گرفتار
کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی مری کیمپ میں سی ٹی ڈی نے کارروائی کے دوران مبینہ دہشتگرد گرفتار کر لیا، ملزم کے قبضے سے گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے۔ دہشت گرد ایف سی اہلکاروں کے قتل سمیت دیگر دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔
سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق کارروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی جس کے دوران مبینہ دہشتگرد غوث بخش کو گرفتار کیا گیا۔ مبینہ دہشتگرد کے قبضے سے گولہ بارود برآمد کیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق غوث بخش کا تعلق کالعدم تنظیم بی ایل اے سے ہے۔
غوث بخش نے تنظیم کی جانب سے مختلف دہشتگردانہ کارروائیوں میں بھی ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ مارگٹ میں ہونے والے ایف سی چیک پوسٹ حملے میں بھی شامل رہا، حملے میں بارہ ایف سی اہلکار شہید ہوئے، مزید تحقیقات جاری ہیں۔
تھائی لینڈ کے بدھسٹ وفد کی جولیاں اسٹوپہ آمد
ہریپور.گزشتہ روز تھائی لینڈ کے مشہور بدھ راہب آرایاوانگسو کا وفد کے ہمراہ جولیاں اسٹوپہ کا دورہ کیا اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے دعا کی۔
بدھسٹ راہب کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بدھا مت کے تاریخی مقامات کی دیکھ بھال سےمطمئن ہیں انہوں نے ڈایریکٹر آرکیالوجی خیبرپختونخوا ڈاکٹرعبدالصمد کا شکریہ ادا کیا ۔ڈایریکٹر آرکیالوجی خیبرپختونخوا ڈاکٹر عبدالصمد کا کہنا تھا کے پورے خیبرپختونخوا میں مختلف آرکیالوجی ساہیڈ پر تزئین و آرائش اور بحالی کا کام جاری ہے ہماری یہ کوشش ہے کے دیگر ممالک سے آنے والے افراد کو بہترین سہولیات میسر آ سکیں اور پاکستان میں ریلیجس ٹورازم کو فروغ ملے .انہوں نے تھائی لینڈ کے بدھسٹ وفد کو جولیاں اسٹوپہ پر تفصیلی بریفننگ دی وفد جولیاں کے بعد ٹیکسلا ،سوات،تخت بائی،اور پشاور کا دورہ بھی کریں گے وفد نے جولیاں اسٹوپہ میں مذہبی رسومات ادا کی اور پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے دعا کی.
Unemployment and Economic Opportunities For Youth
Unemployment and Economic Opportunities For Youth
By Fatima Faraz
Unemployment of youth remained a high concern of every nation state in the world. This has also remained under the focus of policymakers and strategists during recent decades across the globe and countries are still striving to control youth unemployment. No doubt, this is a global phenomenon but Pakistan being a developing country faces it more severely. Hundreds and thousands of youngsters enter the job industry but only a minute percentage of them are getting formal jobs. This will leave most of the youth unemployed, especially the ones from marginalised regions. A significant section of the unemployed youth adversely affects the economic growth and development of a nation.
Despite positive growth in the youth employment statistics during the last 12 years (9% – according to Statista), a significant chunk of the educated young population is still unemployed. Pakistan Institute of Development Economics research suggests that 24% of educated youth in Pakistan are jobless and this rate is increasing each day. Youth unemployment not only leads to economic instability in terms of profit or loss or decrease in the GDP but also leads to health and psychological issues including mental illness, anxiety, and lack of hope for the future as well.
An increase in population and lack of economic opportunities are major reasons in Pakistan due to which unemployment is increasing day by day leading to poverty and economic instability. Pakistan’s education system, lack of market-required skills and lack of technical education are the other key factors contributing to the unemployment crisis in Pakistan. Recently, the Covid-19 pandemic has also played a significant role in reducing jobs, decrease in economic opportunities and decreasing wages.
Inclusivity has no longer prevailed because mostly the students from low-income families cannot compete in job markets. Because of the lack of opportunities, highly educated youth go to opposite fields to satisfy their financial needs but that decision often harms their already developed skills and their educational qualification due to underutilization in certain areas.
Unemployment not only affects the economic and social life of the youth but also leads the severe physical and psychological health issues among the youth. Due to the blur future prospects and lack of job and economic opportunities, many youngsters lose hope and plunge into the sea of desperation.
If we look into the Newly Merged districts of KP, they are facing the same dilemma as most of the young population of KP and other provinces are going through. Everything boils down to money and money spent in the right manner can alleviate people from poverty. The economic activities in the merged districts must take a boost so that youth find their rightful place in these efforts. If money is available, tribal youth would wholeheartedly lead the track.
In poor communities, young people cannot afford to be unemployed so they take any work they can get which leads to underemployment. Today, our world is younger than ever before, but if the situation remains the same, countries like Pakistan will fall, and rising economies will topple hence plans to provide more opportunities should be integrated on national and regional levels.
Making money and finding proper opportunities is a skill and our education system and state have to educate our youth along with formal education that how can they acquire this skill. There are tons of opportunities available for moneymaking online but lake of proper guidelines prevents youth from finding those opportunities. Social Media and several digital platforms could be utilised for finding such opportunities. Educated youth should explore freelancing, which is the most grooming field for economic opportunities.