Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, May 15, 2024

پیس اسپایلرز، وومن رایٹس، ٹارگٹ کلنگ

عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں خصوصاً قبائلی اضلاع میں کچھ عرصہ سے جھاں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہاں بعض مقامی حلقوں یا گروپوں کی جانب سے خواتین کے بنیادی حقوق کی پامالی پر مبنی اعلانات اور اقدامات کا سلسلہ بھی جاری ہے. متعدد قبائلی علاقوں کے علاوہ پشاور میں بھی سرکاری اہلکاروں، سیاسی کارکنوں اور بعض دیگر طبقوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا. متعدد حملہ آوروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار بھی کیا. بعض حملوں میں داعش اور بعض دیگر ان کالعدم گروپ ان واقعات میں ملوث پائے گئے جو کہ مذاکرات کی ایک جاری عمل کی بوجوہ مخالفت کررہے ہیں جبکہ بعض واقعات میں ذاتی اور کاروباری دشمنیوں کے شواہد ملے ہیں. اسباب جو بھی ہو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے دوسروں کے علاوہ سیکورٹی فورسز کو بھی پریشان کر کے رکھدیا ہے کیونکہ ایسے واقعات کا نہ صرف یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کے اپنے اہلکار اس کا نشانہ بنتے ارہے ہیں بلکہ بعض مخصوص لوگ حقائق جانے بغیر کبھی کبھار اداروں پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں جس سے مزید بدگمانی پھیلتی ہے. کچھ عرصہ قبل جنوبی وزیرستان میں 4 دوستوں کو ایسے ہی ایک حملے کا نشانہ بنایا گیا جس پر سخت عوامی اور سیاسی ردعمل سامنے آیا. بعض سیاسی حلقوں نے اس کی ذمہ داری اس کالعدم تنظیم پر ڈال دی جو کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتی آرہی ہے تاہم چند روز قبل اس تنظیم نے نہ صرف اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اس کی کھل کر مذمت بھی کی اور اس عزم کا ایک بیان میں اظہار بھی کیا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرے گی. یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ ایسی قوتیں اس قسم کے واقعات میں ملوث ہیں جو کہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں. ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہورہا اس سے قبل بھی متعدد بار ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور مزید بھی ہوگی اس لیے عوامی اور سیاسی حلقوں کو اس ضمن میں ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور ساز شی تھیوریز سے ہوشیار رہنا چاہیے.
گزشتہ روز ایک قبائلی علاقے میں ایک مذہبی پارٹی کے ایک مقامی لیڈر کو بھی نشانہ بنایا گیا. اس سے قبل بھی اس پارٹی کے متعدد دوسرے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے. اس کا سبب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ بھی پیس اسپایلرز کا کام ہے کیونکہ مذکورہ پارٹی نہ صرف جاری مذاکراتی عمل کو سپورٹ کررہی ہے بلکہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کی حمایت بھی کررہی ہے اور اس پر ہونے والے ایسے حملوں میں وہ گروپ یا گروپس شامل ہیں جو کہ افغانستان میں بھی حملے کرتے آ رہے ہیں. یاد رہے کہ سال 2013 کے دوران جب نواز شریف حکومت نے ایسے ہی مذاکراتی عمل کا آغاز کیا تو اس وقت بھی ایسے ہی حملے کرائے گئے تھے جن میں پشاور کے کوہاٹی چرچ کا حملہ بھی شامل تھا.
دوسری طرف باجوڑ، وزیرستان اور بعض دیگر علاقوں میں بعض مذہبی حلقوں نے خواتین کے باہر نکلنے، ان کی شاپنگ کرنے اور ملازمت کرنے کو اسلام مخالف رویہ قرار دے کر غیر نمایندہ نام ونھاد جرگوں کی آڑ میں مختلف نوعیت کی دھمکیاں دی ہیں جبکہ بعض علاقوں میں شیو کرنے کی ممانعت بھی سامنے آئی ہے. اس قسم کی حرکتیں بھی کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئی ہیں. تاہم اس قسم کے لوگوں کا راستہ روکنا ریاستی، سیاسی اور سماجی سطح پر اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے آئین میں خواتین کے حقوق کا مکمل تحفظ موجود ہے اور اس پر ان جید علماء کے دستخط بھی موجود ہیں جو کہ ایک مضبوط مذہبی پس منظر رکھتے ہیں. پاکستان میں اکیسویں صدی کے دوران اس قسم کے رویے نہ صرف یہ ہے کہ سماجی سطح پر ناقابل برداشت ہیں بلکہ یہ ایک اسلامی مملکت کے متفقہ آئین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے. مذہبی رہنماؤں اور قایدین کو اس قسم کی سرگرمیوں اور اقدامات کا نہ صرف راستہ روک دینا چاہیے بلکہ اپنے زیرِ اثر مذہبی حلقوں کو سمجھا نا بھی چاہیے کیونکہ ایسے عناصر جھاں ایک طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں وہاں وہ اپنے تنگ نظر بیانیہ کی بنیاد پر اسلام کی غلط تشریح بھی کرتے ہیں. ایک اور مسئلہ بھی حل طلب ہے اور وہ یہ کہ پختون خوا میں بزنس کمیونٹی اور صاحب ثروت لوگوں سے تاوان یا بھتہ وصولی کا سلسلہ بھی جاری ہے. اس مسئلے کا بھی فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے تاکہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور بے چینی کا راستہ روکا جاسکے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket