آزاد کشمیر میں جاری کشیدگی ، اسباب اور عوامل
عقیل یوسفزئی
آزاد کشمیر میں گزشتہ چند روز کے دوران بعض مطالبات منوانے کے لیے چلائے جانیوالے پُرامن احتجاج نے جس تیزی کے ساتھ پرتشدد واقعات ، حملوں اور کشیدگی کی شکل اختیار کرکے ریاستی رٹ کو سوالیہ نشان بنایا اس پوری صورتحال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان پرتشدد واقعات اور بعض غیر مروجہ مطالبات کے پیچھے ” کچھ اور ” تو نہیں ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی گورننس کے ایشوز اور مسائل پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں اور اگر حکومت نے بعض مطالبات کو بروقت تسلیم کرنے پر توجہ دی ہوتی جو کہ مقامی سطح پر جینوئن مسائل تھے تو اتنی تلخی اور کشیدگی کی نوبت نہیں آئی ہوتی تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بات اب اتنی بھی سیدھی سادی نہیں لگ رہی جتنی ابتداء میں سمجھی جارہی تھی ۔ انتہائی پرتشدد واقعات ، بعض ناقابل برداشت مطالبات اور منفی پروپیگنڈا کی بھر مار نے بہت سے خدشات پیدا کیے ہیں اور اس ضمن میں عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب درجنوں ، سینکڑوں مظاہرین نے حکومت کی جانب سے تقریباً تمام مطالبات تسلیم کرنے کے مذاکرات اور اعلانات کے باوجود پھر سے سڑکوں پر نکل کر تشدد کا راستہ اختیار کیا اور ایکشن کمیٹی کے بعض اہم عہدے داروں کے منع کرنے کے باوجود سرکاری گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنیادی مطالبات تسلیم کرنے کے باوجود وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پھر سے تشدد کی بنیاد رکھی اور اس کے ردعمل میں حکومت کو سخت ردعمل دینا پڑا ؟ ۔
آزاد ذرائع کے مطابق پرتشدد جھتوں نے مذاکرات کی کامیابی اور اعلانات کے باوجود بہت منظم طریقے سے مختلف شہروں میں ان سرکاری گاڑیوں پر حملے کئے جن میں پولیس اور دیگر اداروں کے لوگ مذاکرات کی کامیابی کے بعد مختلف علاقوں سے اپنے اپنے مراکز کی جانب واپس جارہے تھے ۔ بعض لوگوں نے سرکاری املاک کو نشانہ بنایا تو بعض نے دھرنے دیکر سڑکوں اور کاروباری مراکز کو کھلنے نہیں دیا ۔ اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بعض ریاست مخالف قوتوں نے اس احتجاج کی آڑ میں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیکر حکومت اور عوام کو لڑانے کی نہ صرف بھرپور کوشش کی بلکہ ان تمام ہنگاموں اور پرتشدد واقعات میں اپنا حصہ بھی ڈالا ۔ کیونکہ ایکشن کمیٹی کے متعدد اہم رہنماؤں نے نہ صرف ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیے کہ یہ سب کون کروارہے ہیں ؟ اس تمام عرصے کے دوران جہاں بھارت کا مین سٹریم میڈیا آگ پر تیل ڈالنے کی پالیسی پر گامزن رہا اور لوگوں کو اکساتا رہا کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ لڑ کر بھارت میں شامل ہو وہاں پاکستان کی ایک مخصوص پارٹی اور اس کے میڈیا منیجرز نے 9 مئی کے طرز پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا مہم چلائی اور یہ کوشش کی جاتی رہی کہ ان پرتشدد واقعات کی لہر اور سلسلے کو پاکستان کے دیگر علاقوں تک بھی پھیلایا جائے ۔ اس مخصوص پارٹی اور اس کے حامیوں نے ایک پروپیگنڈا ٹول کے ذریعے اس کشیدگی کو مطالبات کے حل کی کسی کوشش کی بجائے ” حقیقی آزادی” کی لڑائی قرار دیکر نہ صرف کشمیری عوام کو مزید اکسایا بلکہ اس ” خواہش” کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہیے ۔
یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ جس وقت مطالبات تسلیم کرنے کے باوجود پھر سے بعض پرتشدد واقعات سامنے آئے اس دوران قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اے پی ایس سانحہ کی انکوائری سمیت بعض دیگر واقعات کے حوالے دیکر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائیوں کا مطالبہ کررہے تھے اور ایسا کہتے وقت وہ جذبات میں آکر یہ بھی بھول گئے کہ بقول خواجہ آصف اس سلسلے کا آغاز ایوب خان سے کیا جائے ۔ عمر ایوب خان یہ بھی بھول گئے یا کسی نے ان کو یہ یاددہانی کرانے کی کوشش نہیں کی کہ اے پی ایس سانحہ کی نہ صرف انکوائری ہوئی ہے بلکہ متعدد اہم سرکاری عہدے داروں کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئی ہیں ۔ ان سے کسی نے شاید یہ بھی نہیں پوچھا کہ اے پی ایس سانحہ کے وقت خیبرپختونخوا میں کس پارٹی کی حکومت تھی ؟ ۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ آذاد کشمیر میں مسائل کے حل اور مطالبات منوانے کے لیے کیے جانے والے احتجاج کو بعض مذکورہ مخصوص سیاسی قوتوں کے علاوہ بعض ان مقامی طاقتوں نے بھی ہائی جیک کیا جو کہ کئی دہائیوں سے ایک خودمختار کشمیر کی بات کرتے آرہے ہیں اور ان میں سے بعض کو بھارت سمیت بعض دیگر عالمی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کو اندرونی طور پر متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعد آذاد کشمیر جیسے حساس علاقے میں اس طرح کی کشیدگی اور صورت حال کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیا جانا چاہیے اور اس فیکٹر کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ اگر 9 مئی کے واقعات میں مبینہ طور پر بعض رعایتوں سے کام نہیں لیا جاتا تو آج اذاد کشمیر میں اس طرح کے افسوسناک اور تشویش ناک صورتحال کی شاید نوبت نہیں آئی ہوتی ۔ لگ یہ رہا ہے کہ اگر اس روایت کو توڑنے کی کوشش نہیں کی گئی تو مستقبل میں مزید جھتہ گرد اس طرح کا رویہ اور راستہ اختیار کرکے ریاست اور معاشرت کو چیلنج کرنے سے نہیں گھبرائیں گے اور ایسے میں بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کے جایز مطالبات اور مسائل کے حل پر ہر علاقے میں ہنگامی طور پر توجہ دیکر نظام میں موجود کمزوریاں دور کریں مگر ساتھ میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سیاسی سرگرمیوں ، اظہار رائے اور مطالبات منوانے کی آڑ میں اس قسم کی صورتحال پیدا کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے ۔