3ff9cf69-bf55-4e8d-b7df-800e99b2ee41

حالات میں الجھی ہوئی زلفیں

حالات میں الجھی ہوئی زلفیں
عقیل یوسفزئی

کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کون کیا کہہ رہاہے، کیوں کہہ رہا ہے اور کس کو کہہ رہا ہے. ہر کوئی اپنی بات منوانے پر تلا ہوا ہے. ہر دوسرا بندہ شک اور بے چینی کے ایک ایسے مرض میں مبتلا نظر آرہا ہے جس کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں اگر آج وہ زندہ ہوتے. ایک بھیڑ ہے، ایک ہجوم ہے جو بے سمت اور بے مقصد سفر سے نبرد آزما ہے. ایک شور ہے جو ہر سوں سنائی دے رہا ہے. اسباب نہ تو شور مچانے والے کو معلوم ہیں اور نہ ہی سننے والے کو اس بات کا کوئی ادراک ہے کہ اگلا بندہ شور کیوں مچارہا ہے اور یہ کہ وہ کیا کہنا یا کہلوانا چاہ رہا ہے.
کوئی کسی پر اعتماد نہیں کررہا ہاں اعتراض ہر کوئی کررہا ہے.
سازشی تھیوریاں پاکستان میں عروج پر ہیں. نہ کوئی دلیل، نہ کوئی وجہ اور نہ کوئی حل. بس الزامات پر الزامات اور ایسے بیانات کی بھرمار جس کا نہ تو پس منظر کا کسی کو علم ہے نہ پیش منظر کا کوئی ادراک. کوئی بھی شخص، طبقہ، پارٹی یا ادارہ اس صورتحال سے مبرا نہیں بلکہ سب ایک ایسی دھند یا بھنور میں پھنسے دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے بحفاظت نکلنا ممکن ہی دکھائی نہیں دے رہا.
قومی قیادت سیاسی مخالفت کی بجائے ذاتیات پر اتر آئی ہے اور ان کے کارکن ایکدوسرے کو سر عام گالیاں دے رہے ہیں. سیاسی وفاداری کا پیمانہ یہ رہ گیا ہے کہ کون کتنی گالیاں دے سکتا ہے اور مخالفین پر کتنے الزامات لگا سکتا ہے. سیاست نے کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے اور نام خدمت کا لیا جارہا ہے.
سیاست اور معاشرت میں اخلاقیات اور روایات کو پسماندگی کا نام دیا جانے لگا ہے اس پر ستم یہ کہ یہ سب کچھ عام لوگوں کے ہاتھوں نہیں ہورہا بلکہ یہ تمام رویے پڑھے لکھے حلقوں نے اپنا رکھے ہیں. ڈگری ہولڈرز تربیت کو پس پشت ڈال کر بے چارے عوام کی سادگی اور بے چارگی دونوں کا مذاق اڑانے کے علاوہ اپنی تعلیم و تربیت کا بھی تماشا لگاتے نظر آرہے ہیں. سوشل میڈیا کے کی بورڈ واریررز کسی بھی وقت حقائق اور نتائج کا احساس کئے بغیر کسی پر بھی کیچڑ اچھالنے اور گولی چلانے کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور ایسا کرتے وقت نام لیا جاتا ہے اظہار رائے اور معلومات کے تبادلے کا.
یہ صورت حال اچانک نہیں بنی بلکہ اس کے لیے برسوں کی ذہن سازی اور تیاری کی گئی ہے. کوشش کی گئی کہ عوام، ملک اور مذہب کے نام استعمال کرکے معاشرے کو تقسیم کیا جائے اور سماجی، سیاسی اور مذہبی تفریق کو اس انداز میں نفرت کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے کہ کوئی بھی قابل اعتبار نہ رہے. اپنی بات درست منوانے کے مرض لاعلاج نے پاکستان کو بداعتمادی اور بے چینی کے ایسے حالات سے دوچار کردیا ہے کہ اس مملکت میں ہونیوالے اچھے کام کسی کو نظر نہیں آرہے. یہاں ہونے والی ترقی اور استحکام کا کوئی ذکر ہی نہیں کرسکتا. ہر شعبے میں روزانہ کی بنیاد پر ہیروز پیدا ہورہے ہیں مگر ان کی نہ تو کوئی بات کرتا ہے نہ ہی ان کی کوئی حوصلہ افزائی ہورہی ہے. اکثر نے مخصوص قسم کے کالے چشمے لگا رکھے ہیں جن کے ذریعے دوسروں کے علاوہ اپنے ملک، عوام اور دنیا کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور ان چشموں کے ذریعے سب کچھ برا ہی دیکھنے کی گویا قسم کھائی گئی ہے.
دنیا میں ہر جگہ مسائل بھی ہوتے ہیں، مشکلات بھی اور کمزوریاں بھی مگر کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بتدریج اجتماعی کردار کے ذریعے بہتری اور تبدیلی لائی جاسکے. مگر یہاں کوشش یہ جاری ہے کہ اگر کہیں کچھ اچھا ہورہا ہے تو اس کو بھی متنازعہ اور مشکوک بناکر اسے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کیا جائے.
ہر کوئی ہر بات اور ہر کام کرنا جانتا ہے. اگر نہیں جانتا تو اپنے حصے کا کام درست طور پر سرانجام دینا. اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پورا معاشرہ بے چینی اور انتشار کا شکار ہے. کوئی جنگ کو دولت اور شہرت کمانے کا زریعہ بنا بیٹھا ہے تو کوئی امن برائے فروخت کی دکان سجائے نظر آرہا ہے.
اس تمام تر صورتحال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہم ایک ایسی ناراض نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں جس کے پاس بے پناہ صلاحیتیں ہیں مگر ان کے پاس درست سمت کا تعین نہیں ہے. یہ سب ہمارے مستقبل کے معمار بننے جارہے ہیں اور یہ معاشرہ اور ملک مستقبل میں ان کے ہاتھوں میں ہوگا مگر ہم اپنے انہی رویوں کے ذریعے اس نسل کو نفرت، انتقام، عدم تحفظ اور بے چینی کی کنویں میں دھکیلنے پر تلے ہوئے ہیں.
وقت آگیا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی حالات کی الجھی ہوئی زلفوں کو مذید الجھانے کی بجائے اپنی آنیوالی نسلوں کو ایک مثبت اور تعمیری مستقبل کی راہ پر گامزن کریں ورنہ ہم نہ صرف اپنا حال تباہ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے بلکہ تاریخ اور ہماری یہ نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی. بقول نیلسن منڈیلا بہتر مستقبل کا آسان نسخہ یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اور سب کو معاف کرکے آگے بڑھا جائے اور تلخیوں کو بھلا دیا جائے.

DD

ارشید شریف کی موت کے حوالے سے حقائق معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے:ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  کہ ارشد شریف کی موت سے متعلق حقائق کا ادراک انتہائی ضروری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ اس پریس کانفرنس سے متعلق وزیر اعظم پاکستان کو خصوصی طور پر آگاہ کیا گیا ہے اور ‏یہ پریس کانفرنس اس لئے کی جارہی تاکہ ارشد شریف کے معاملے پر حقائق سب کے سامنے آسکیں۔

ارشد شریف کے واقعے پر جھوٹا بیانیہ بنایا گیا اور اس ‏جھوٹے بیانیے کے ذریعے معاشرے میں غیر معمولی اضطراب کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

دکھ تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ ارشد شریف کی وفات ایک اندوہناک واقعہ ہے وہ پاکستان کی صحافت کا ایک آئیکون تھے۔ سیاچن ہو، فوجی مشقیں، شمالی علاقہ جات، ارشد شریف کے پروگرام صحافتی دنیا میں ہمیشہ سامنے رکھے جائیں گے۔وہ ایک فوجی کے بیٹے اور شہید فوجی کے بھائی تھے۔ ارشد شریف نے سائفر کے معاملے پر بھی کئی پروگرامز کیے۔فوج اور شہیدوں کے بارے میں ان کے پروگرام میں درد ہمیشہ جھلکتا تھا۔

چھیترال

چترال : بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ کشمیر منایا گیا

چترال :ملک کے دوسرے حصوں کی طرح اپر چترال میں بھی ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام یوم سیاہ کشمیر منایا گیا۔
اس حوالے سے ایک پروقار تقریب گورنمنٹ ہائی سکول بونی میں منعقد کی گئی۔ پروگرام میں کشمیر کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ ہندو سامراج کے ظلم ستم اور کشمیر پر حکومت انڈیا کے غیر قانونی مداخلت کے حوالے سے تقریریں کی گئی اور انڈین حکومت کےاس اقدام کو بھرپور انداز میں مزمت کی گئی۔

اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر کو پاکستان کا شہ رگ قرار دیا۔ انہون نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کو پاکستان سے جدا نہیں کرسکتا۔ اس پروگرام کے بعد اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے سلسلے میں ایک ریلی گورنمنٹ ہائی سکول بونی سے نکالی گئی اور بونی چوک پہنچ کر احتیتام پذیر ہوا۔ ریلی میں فدالکریم ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل اپر چترال، اسسٹنٹ کمشنر مستوج شاہ عدنان، مفتاح الدین ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اپر چترال، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم اپر چترال کے افسران، پرنسپل صاحبان، اساتذہ کرام، طلباءو طالبات اور عام عوام نے شرکت کی۔

ریلی کےشراکاء نے کشمیر کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ ہندو سامراج کے مظالم کی بھرپور مزمت کی گئی اور انڈیں حکومت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ مقررین نے کہا کہ مسلہ کشمیر کشمیری مسلمانوں کے امنگوں اور اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ ریلی کا اختیتام پاکستان ذندہ باد، ہم اپنے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہیں ، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے کے فلگ شگاف نعروں کے ساتھ اپنے اختیتام کو پہنچا۔ کسمیر بلیک ڈے کے حوالے سے ایک ریلی محمد علی ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مستوج کی سربراہی میں مستوج میں نکالی گئی اور نہتے کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا.

aurak

اورکزئی: یوم سیاہ کشمیر کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد

اورکزئی: اورکزئی ہیڈ کوارٹر اور کلایا ہیڈ کوارٹر میں یوم سیاہ کشمیر کے حوالے تقریبات کا انعقاد انتظامیہ افسران اور قبائلی عمائدین کی شرکت۔

نہتے کشمیریوں پر بھارتی مظالم  کے خلاف واک کا انتظام کیاگیا۔ یوم سیاہ کشمیر کے حوالے سے اورکزئی ہیڈ کوارٹر تقریب میں ضلعی پولیس آفیسر نذیر خان ضلعی محکموں کے آفسران، قبائلی مشران، اساتذہ، طلباء و طالبات نے شرکت کی جبکہ کلایا ہیڈ کوارٹر میں ڈی ایس پی محبوب خان کی قیادت میں واک کیا گیا جس میں اے ڈی سی شہباز خان خٹک اے سی ابراہیم سمیت افسران نے شرکت کی۔

منعقدہ تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اورکزئی، ڈی پی او اورکزئی اور قبائلی مشران کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام، حکومت پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ہر سال 27 اکتوبرکا دن یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتارکر غیر قانونی قبضہ کرلیا جو تا حال قائم ہے۔ اُس دن کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے ہی یکسر محروم کردیا گیا۔

کشمیر کے نہتے عوام پر بھارتی مظالم پر اقوام عالم کی خاموشی افسوسناک ہے۔ ہم اس وقت تک کشمیری بھائیوں کی ہر قسم انسانی، اخلاقی، سفارتی اور سیاسی جدوجہد کی سپورٹ کرتے رہیں گے کہ جب تک انکو اقوام متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کا حق نہیں دیا جاتا ۔گزشتہ 75 برس سے کشمیر کے عوام بھارتی جبر کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، منصفانہ جدوجہد میں پاکستان کے عوام کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کے عوام کشمیریوں کو آزادی کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں، طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلا نہیں جاسکتا۔

وادی کاغان اور سیلاب سے متاثرہ سیاحت

پاکستان اس سال  تاریخ کے ایک بد ترین سیلاب کی زد میں آیا۔ اب سیلاب کے 2ماہ بعد  جہاں ملک تباہ کن سیلابوں کے بعد بحالی کا آغاز کر رہا ہے وہیں وادی کاغان میں سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والی  سیاحت کی صنعت  بھی سیلاب سے پہلے  والے  معمول پر آنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جس کی وجہ سے  سیاحوں کی  وادی میں آمد بھی متاثر  ہوئی  ہے۔

وادی میں سیاحوں کی کمی کی وجہ سے سیاحت کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہوٹل، ریسٹورنٹ اور جیپ کے کاروبار سے وابستہ افراد حالیہ بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

 خوش قسمتی سے وادی کاغان میں صرف مہندری کے مقام پر دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا بازار متاثر ہوا جبکہ وادی کے دیگر مقامات سیلاب سے محفوظ رہے۔ تاہم سیلاب کے بعد سیاحوں کی تعداد میں کمی سے وادی کے مختلف سیاحتی مقامات کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں جس سے سیاحت کی صنعت کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ  جہاں سیلاب  نے بازاروں اور ہوٹلز کو تباہ کیا وہیں رابطہ سڑکیں اور پل بھی تباہ ہوئے ہیں  جس کی وجہ سے سیاحوں کو  وادی تک آنےشدید مسائل کا سامنا ہے۔

  وادی میں سیاحتی سیزن جون میں شروع ہوتا ہے اور نومبر کے مہینے تک رہتا ہے، تاہم اگست  اور ستمبر کے مہینے میں سیاحوں کی انتہائی کم تعداد کی وجہ سے موجودہ سیزن پہلے ہی نومبر کی شکل اختیار کر رہا ہے جب کہ صرف مٹھی بھرسیاح ہی یہاں نظر آ ئے ہیں۔

دوسری جانب ناران ہوٹل ایسوسی ایشن نے ناران میں سیاحوں کے لیے کمروں کی بکنگ پر 50% اور کرائے اور کھانے پینے کی اشیاء پر 25% کا خصوصی ڈسکاؤنٹ پیکج بھی پیش کیا ہے تاکہ سیاحوں کو ترغیب دی جا سکے۔

 ایسوسی ایشن کے صدر سیٹھ مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ملک بھر کے سیاحوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وادی کاغان سیاحوں کے لیے سب سے محفوظ وادی ہے جو بغیر کسی خوف کے وادی کا دورہ کر سکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وادی میں سیاحتی سرگرمیوں سے 50 ہزار سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے اور سیلاب کے بعد سیاحوں کی کمی کی وجہ سے سیاحت کی صنعت سے وابستہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد گزشتہ دو ماہ سے بے روزگاری کا شکار ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے مہندری میں دریائے کنہار کے قریب بنی جھیل کو توڑنے کا کام شروع کیا تاکہ آمدورفت میں درپیش مسا ئل کو کم کیا جا سکے۔ مسلسل طوفانی بارشوں کے باعث دریائے کنہار اور بالاکوٹ کے ندی نالوں میں طغیانی آگئی جس سے متعدد رابطہ پل اور سڑکیں تباہ ہوگئیں۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ سیلاب سے بالاکوٹ کے علاقے مہندری میں جھیل بن گئی تھی جس سے قریبی آبادی اور ہوٹلوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس سے قبل وادی منور میں سیلابی ریلے نے علاقے کا پورا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا تھا جس میں 18 دکانیں اور 3 ہوٹل بھی شامل تھے جو تیز بہاؤ کے پانی میں بہہ گئے تھے۔ مہاندری پولیس چوکی، مہندری ہائی اسکول، مہندری پرائمری اسکول اور مدرسہ تحفیظ القرآن کی عمارتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اسی طرح تاجر برادری کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ جھیل بننے سے ایک بار پھر شدید نقصان کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

وادی کاغان کا اصل مسئلہ مستقل بنیادوں پر سیاحوں کےلیے محفوظ سیاحت کو یقینی بنانا ہے ۔  اس کے لیے آئندہ کی تعمیر نو میں موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سامنے آنے والے  چیلنجز جیسا کہ شدید بارشیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ ذرائع آمد و رفت اور ہوٹلز اور شاپنگ سنٹرز کا قیام وغیرہ  سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اس کے لیے طویل المدتی پالیسیاں ہی کوئی حل تلاش کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔