US

نائب سربراہ امریکی مشن کا سکیورٹی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے خیبر پختونخوا کا دورہ

پشاور :نائب سربراہ امریکی مشن کا سکیورٹی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے خیبر پختونخوا کا دورہ
امریکی ڈپٹی چیف آف مشن اینڈریو ش±وفرکی آئی جی خیبر پختونخواختر حیات گنڈاپور سے ملاقات  کی اس کے علاوہ امریکی مشن نے تاریخی قلعہ بالاحصار میں فرنٹیئر کور کے انسپکٹر جنرل سے بھی ملاقات کی۔
ڈی سی ایم شوفر نے خیبر پختونخوا کے تاجروں، صنعتکاروں اورآئی ٹی بورڈ کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔
دورے کا مقصدسرحدوں کی حفاظت کے سلسلہ میں امریکی عزم کی تجدید کرنا ہے ۔ اس موقع پرنائب سربراہ امریکی مشن کا عسکریت پسندی کےخلاف جنگ میں پاکستان کیلئے امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ایف سی کے استعداد کار بڑھانے کیلئے ڈھائی لاکھ ڈالر مالیت کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔
ڈی سی ایم ش±وفر نے آئی جی پولیس کو ساڑھے تین لاکھ ڈالر مالیت کا حفاظتی اور سیکورٹی سامان بھی حوالے کیا۔ آلات سے دہشتگردی کےخلاف پولیس فورس کی حفاظت اور کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔
ڈی سی ایم شوفر کی قبائلی اضلاع میں یو ایس ایڈ کے پروگرام سے مستفید ہونیوالوں کیساتھ گول میز کانفرنس میں بھی شرکت۔ انہوں نے وہاں سلائی مشینیں اور شمسی توانائی سے چلنے والے پنکھے تقسیم کیے۔امریکی مشن کے وفد نے تاریخی عبادتگاہ سینٹ جونز کیتھڈرل کا بھی دورہ کیا۔

سچھہہل

شمالی وزیرستان: شمعزان کوٹ درازندہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کا افتتاح

شمالی وزیرستان کی تحصیل سپین وام کے علاقے شمعزان کوٹ درازندہ میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کا افتتاح کردیا گیا۔

ونگ کمانڈر شمعزان کوٹ درازندہ نے ایم پی سی ایل کے تعاون کے ساتھ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت شمعزان کوٹ درازندہ میں تعمیر شدہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کا افتتاح کیا جس کی تزئین و آرائش میں چھ کلاس رومز کی تعمیر اور الیکٹرک وائرنگ کا کام بھی شامل تھا۔اس کے ساتھ ساتھ سکول میں طلبہ کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مزید سہولیات بھی میسر کی گئیں ۔
اس موقع پر ونگ کمانڈر نے مقامی لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ایم پی سی ایل کے تعاون کے ساتھ شمالی وزیرستان کے تمام پبلک سیکٹرز بالخصوص صحت اور تعلیم کے شعبے میں بہتری کیلئے مسلسل کوشاں ہیں جو کہ اس علاقے میں امن اور خوشحالی کا باعث بنیں گے۔ انشاءاللہ
مقامی ملک و مشران نے علاقے میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کے قیام پر انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاک فوج کے شمالی وزیرستان میں امن کی بحالی کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی کام کرنے کے کردار کو سراہا ۔

ec

نئی حلقہ بندیوں کے اعداد و شمار جاری

اليکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے ابتدائی اعداد و شمار جاری کردئے ہیں۔

خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستیں کم ہو کر 45 کردی گئی ہیں جبکہ 10 خواتین کی مخصوص نشستیں ہوں گی، بلوچستان سے 16 جنرل اور 4 خواتین، سندھ سے 61 جنرل اور 14 خواتین، اسلام آباد سے تین جنرل جبکہ پنجاب سے سب سے زیادہ 141 جنرل اور 32 خواتین کی نشستیں ہوں گی۔

قومی اسمبلی کا ایوان 326 ممبران پر مشتمل ہوگا جس میں 53 فیصد یعنی نصف سے زائد 173 نشستیں پنجاب سے ہوں گی، قومی اسمبلی کے ایوان میں 266 جنرل اور 60 خواتین کی مخصوص نشستیں ہوں گی، صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی تعداد کو برقرار رکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کو 9 لاکھ 7 ہزار 913 افراد پر ایک قومی اسمبلی کا حلقہ دیا گیا.

اسلام آباد کو 7 لاکھ 87 ہزار 954 افراد، پنجاب کو 9 لاکھ 5 ہزار 595، سندھ کو 9 لاکھ 13 ہزار 52 جبکہ بلوچستان کو 9 لاکھ 30 ہزار 900 افراد پر ایک قومی اسمبلی کی نشست دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے 3 لاکھ 55 ہزار 270 نفوس پر مشتمل حلقہ بنایا گیا ہے، پنجاب میں صوبائی اسمبلی کا حلقہ 4 لاکھ 29 ہزار 929، سندھ میں 4 لاکھ 28 ہزار 432 جبکہ بلوچستان میں 2 لاکھ 92 ہزار 47 افراد پر ایک صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے۔

خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ پشاور میں 5 قومی اسمبلی کے حلقے ہونگے۔ اسی طرح مردان اور سوات سے تین ، تین، مانسہرہ، لوئر دیر، صوابی، چارسدہ اور نوشہرہ سے دو، دو، ڈی آئی خان میں دو مکمل جبکہ ایک ٹانک کے ساتھ مشترکہ ہوگا، ہنگو اور اورکزئی کا مشترکہ ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہوگا۔ اپر اور لوئر چترال کا بھی ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہوگا، جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر کا بھی مشترکہ حلقہ ہوگا، کرم، بنوں ،شمالی وزیرستان، لکی مروت، خیبر، مہمند، کوہاٹ، کرک، ہری پور، اپر دیر، باجوڑ، بونیر، ملاکنڈ، شانگلہ اور بٹگرام سے ایک، ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہوگا۔

اسی طرح اپر کوہستان، لوئر کوہستان اور کولائی پالس کا مشترکہ ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہوگا۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی اسمبلی کی نشستوں کے حلقوں کے مطابق پشاور سے ایک حلقہ کم ہوگیا ہے اور اب پشاور میں 13 صوبائی اسمبلی کے حلقے ہوں گے۔ سوات اور مردان میں 8 ،8، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ، مانسہرہ اور لوئر دیر میں 5،5، بنوں، ایبٹ آباد اور باجوڑ میں 4، 4، لکی مروت، کوہاٹ، خیبر، شانگلہ، بونیر، ہری پور اور اپر دیر میں تین تین،شمالی وزیرستان، کرک، کرم، مہمند، بٹگرام اور ملاکنڈ میں دو دو جبکہ ٹانک، جنوبی وزیرستان اپر، جنوبی وزیرستان لوئر، اورکزئی، ہنگو، تورغر، کوہستان اپر، کوہستان لوئر، کولائی پالس، اپر چترال اور لوئر چترال میں ایک ایک صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہوگا۔

نئی حلقہ بندیوں کے مطابق چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے سے اپر کو الگ اور لوئر کو الگ الگ صوبائی اسمبلی کا حلقہ مل گیا۔ سوات، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں ایک حلقے کا اضافہ ہوگیا جبکہ ہنگو، پشاور اور کوہاٹ سے ایک ایک حلقہ کم ہوگیا ہے۔

ec

قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 272سے کم کر کے 266کر دی گئی

الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست ویب سائٹ پر جاری کر دی،اشاعت 27ستمبر سے 26 اکتوبر تک جاری رہے گی،قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 272سے کم کر کے 266کر دی گئی.

  1. پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، سندھ میں 51 ،کے پی کے میں 45، بلوچستان میں 16،اسلام آباد میں 3 نشستیں ہوں گی۔

ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق، پنجاب اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 297، سندھ اسمبلی میں 130، خیبر پختونخوا اسمبلی میں 115 اور بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشستیں 51 ہونگی

Return of more than 16000 Afghan citizens

پاکستان میں افغان مہاجرین کاطویل قیام اور اقوام متحدہ کی رپورٹ

پاکستان میں افغان مہاجرین کا طویل قیام اور اقوام متحدہ کی رپورٹ
عقیل یوسفزئی
اقوام متحدہ نے جون 2023 کی جاری کردہ اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں 3.7 ملین (37 لاکھ) افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں اور یہ کہ ان کے قیام کو تقریباً 40 سال مکمل ہونے کو ہے. رپورٹ کے مطابق 3.7 ملین مہاجرین میں رجسٹرڈ افراد یا خاندانوں کی تعداد صرف 1.33 ہے باقی غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہیں.
کہا گیا کہ 68. 8 فی صد افغان شہری پاکستان کے شہری یا نیم شہری علاقوں میں جبکہ 31.2 فیصد ملک کے دیگر علاقوں یعنی دیہی علاقوں میں قیام پذیر ہیں.
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افغان مہاجرین خیبر پختون خوا میں قیام پذیر ہیں جو کہ 24 فی صد ہیں. بلوچستان 14.3 فی صد کے تناسب سے ان کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا مرکز ہے. پنجاب میں 5.5 فی صد جبکہ سندھ میں 3.1 اور اسلام آباد، کشمیر میں تقریباً ایک ایک فیصد مہاجرین آباد ہیں.
یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان میں 6 لاکھ مزید افغان مہاجرین پاکستان میں آئے ہیں.
اگر اس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس کے باوجود افغانستان کے مہاجرین کی تعداد اور آمد میں کمی واقع نہیں ہوئی کہ سال 2002 سے لیکر سال 2021 تک وہاں نہ صرف یہ کہ امن و امان اور گورننس کے معاملات کافی بہتر رہے بلکہ عالمی برادری کی بے پناہ سرمایہ کاری کے باعث روزگار اور ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھ گئے تھے. پاکستان میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1980 کے بعد اس وقت شروع ہوگیا تھا جب سردار داود خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس وقت کی کمیونسٹ حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور محض ابتدائی ایک مہینے کے دوران تقریباً25 سے 35 ہزار افراد قتل کئے گئے. (سابق افغان صدر ببرک کارمل کی حکومت کی ایک رپورٹ).
بعد ازاں پاکستان، سعودی عرب، امریکہ اور بعض عالمی اداروں نے خطے میں سوویت یونین کی مہم جوئی کی آڑ میں ان مہاجرین کو بعض مجاہدین گروپوں کے لیے “دستیاب یا مہیا” کرنے کی پالیسی اختیار کی تو ان کی آمد میں مزید اضافہ ہوا. ابتدا میں ان کو کیمپوں میں رکھا گیا اور پختون خوا میں ان کے لیے تقریباً 11 جبکہ بلوچستان میں 9 بڑے کیمپس قائم کئے گئے تاہم چند برسوں بعد ان کو غیر معمولی آزادی اور سہولیات دی گئیں اور یہ پشاور اور کوئٹہ سمیت بڑے شہروں میں نہ صرف رہائش پذیر ہوگئے بلکہ ان کو روزگار اور جائیدادیں خریدنے کی اجازت بھی حاصل رہی. اس کام کے دوران پاکستان کے متعلقہ حکام نے بے پناہ دولت کمائی اور یہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرگئ.
سال 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین نے تقریباً 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی. مذکورہ رپورٹ کے مطابق آف دی ریکارڈ سرمایہ کاری ایک ٹریلین ڈالر تک کہی جارہی تھی.
پشاور اور کوئٹہ کے علاوہ افغان مہاجرین اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں بھی نہ صرف آباد ہوئے بلکہ وہ کاروبار اور ٹرانسپورٹ کے مختلف شعبوں میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کرتے نظر آئیں.
پاکستان میں یہ تاثر بہت عام رہا کہ بدامنی اور جرائم میں افغان مہاجرین کا بڑا ہاتھ رہا ہے اور اس کی بنیاد پر مختلف حلقوں اور حکومتوں نے مختلف اوقات میں نہ صرف افغان مخالف مہم چلائی بلکہ کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کیا تاہم اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا کہ ان کو غیر قانونی قیام کی اجازت دینے والے اداروں کا کوئی محاسبہ کیوں نہیں دیکھنے کو ملا اور نادرا سمیت بعض دیگر اداروں کا اس تمام صورتحال میں کتنا منفی اور غیر ذمہ دارانہ کردار رہا؟
6 ستمبر2023 کو جب ٹی پی نے چترال اور افغان فورسز نے طورخم پر حملے کیے تو پاکستان میں پھر سے یہ بحث چل نکلی کہ افغانستان کے مہاجرین کو ملک سے نکال دیا جائے اور عام مہاجرین کے علاوہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے علاوہ اسمگلنگ، دیگر سرگرمیوں میں ملوث مہاجرین کے خلاف کارروائی بھی شروع کی گئی تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاجرین کے بارے میں عملاً پاکستان کے متعلقہ اداروں کا کوئی جامع پالیسی سرے سے ہے ہی نہیں اس لئے ان اقدامات کو بھی محض ایک وقتی ردعمل کے طور پر دیکھا گیا.

Octber

اکتوبر کے پہلے ہفتے سے موسم سرما کنٹنجنسی پلان کا آغاز کیاجائے گا

خیبرپختونخوا کے سیکرٹری برائے محکمہ ریلیف، بحالی وآبادکاری عنایت اللہ وسیم کی زیرصدارت پراونشل ڈیزاسٹرمینجمیٹ اتھارٹی خیبرپختونخوا کی کارکردگی ،ضم شدہ اضلاع میں بحالی کے کاموں ،جاری و مکمل منصوبوں کے حوالے سے اہم اجلاس منعقد ہوا۔
اس موقع پر پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل جنت گل آفریدی، ایڈیشنل سیکرٹری ریلیف محمد نواز،پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرزاوردیگر افسران بھی موجود تھے۔ سیکرٹری ریلیف عنایت اللہ وسیم نے اس موقع پر ڈیزاسٹر رسک رڈکشن پالیسی کو بروقت تیار کرنے کی ہدایات جاری کی اور موجودہ حالات کے مطابق سسٹم کو مزید فعال کرنے کی ہدایت بھی جاری کی تاکہ عوام کو بروقت سہولیات اور معلومات فراہم کی جاسکے۔اورعوامی آگاہی مہم کےذریعے عوام کو بروقت معلومات فراہم کی جائے۔
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے جنت گل آفریدی نے کہا کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے سے ونٹر کنٹنجسی پلان کا آغاز کیاجائے گا۔ڈی جی پی ڈی ایم اے نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم اے خیبرپختونخوا ہر سال مون سون کنٹیجنسی پلان، ہیٹ ویو پلان اور ونٹر کنٹنجسی پلان بناتی ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی تجاویز اور حساس اضلاع کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اضلاع کو امدادی سامان پہلے ہی مہیا کر دیا جاتا ہے۔
بریفنگ کے دوران سیکرٹری ریلیف کو دوران آفات بچوں ،خواتین اور اسپشل افراد کے تحفظ کے لیے قائم سیل کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا جو کہ دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر فرائض انجام دے رہا ہے۔

Canada India Tensions Over Killing of Sikh Hardeep Singh Nijjar

سات سمندرپار بھارتی دہشت گردی

وصال محمدخان
ہمارے پڑوس میں واقع ملک جوخودکودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کاڈھونگ رچارہاہے یہ نوٹنکی اس وقت بے نقاب ہوجاتی ہے جب اس ملک کے اندراقلیتوں پرمظالم ڈھانے کی خبریں باہرآتی ہیں،گائے کے ذبیح پرچلتے پھرتے انسانوں کوزندہ جلادیاجاتاہے، مسلمانوں کی بستیاں اجاڑدی جاتی ہیں،انکی مساجدپرقبضہ کرکے مندریں تعمیرکی جاتی ہیں،عیسائیوں کے گرجاگھروں کومسمارکیاجاتاہے، سکھوں پراپنے ملک کی زمین تنگ کردی گئی ہے،وہ بے چارے بیرون ملک فرارہوکرخودکوبچالیتے ہیں مگربھارتی قصائی انکے پیچھے بیرون ملک بھی پہنچ جاتے ہیں اورانہیں گولیاں ماردی جاتی ہیں مگرمجال ہے کہ بھارتی حکمرانوں کوذرابھرپرواہویا گردن کے سرئے میں خم واقع ہو بلکہ وہ کمال ڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے سب سے بڑی جمہوریت کاراگ الاپنے میں شدت پیداکردیتے ہیں اورانہیں ذرابھرندامت چھوکرنہیں گزرتی پاکستان کے اندردہشت گردی اورشدت پسندگروہوں کومددکی فراہمی تواب پرانی بات ہوچکی ہے،افغانستان میں قونصل خانوں کے نام پردہشت گردی کے مراکزاوروہاں سے پاکستان پرحملے بھی قصہ پارینہ بن چکے ہیں کلبھوشن یادیوکوبھی بھلادیاگیاہے جو پاکستانی سرزمین سے اس وقت گرفتارہواجب وہ پاکستان میں دہشت گردی اورتخریب کاری کے مذموم مشن پرموجودتھا ان سب باتوں سے بھارتی قیادت کوشرمندگی کیا ہونی ہے وہ اس پرفخرکرتے ہیں اوربرملااس کااظہارکرتے ہیں بھارتی شرانگیزی کاپہلے توصرف ہمسایہ ممالک نشانہ بنتے رہے ہیں،بنگلہ دیش اسکے شرسے محفوظ نہیں،سری لنکامیں ڈیڑھ عشرے تک تامل ٹائیگرزکے ذریعے خون کی ہولی کھیلتارہا،نیپال اوربھوٹان بھی اسکے شرسے محفوظ نہیں رہے پاکستان پرتواسکی خصوصی نظرکرم ہے اورپاکستان کے ساتھ معاندانہ روئیے سے یہی محسوس ہورہا ہے جیسے ہندوانتہاپسند ماضی کی تمام ہزیمتوں کابدلہ پاکستان سے لیناچاہتے ہیں وہ اسے بلاسبب دنیامیں سب سے بڑادشمن سمجھتے ہیں اور اسکے خلاف آئے روزنت نئے شوشے چھوڑتارہتاہے حالانکہ وہ اپنی ہمہ اقسام کی شرانگیزیوں اوراربوں ڈالرزخرچ کرنے کے باوجود پاکستان کابال بیکانہ کر سکاکیونکہ پاکستانی قوم اوراسکی فوج بھارتی شرانگیزیوں کے خلاف چٹان بن کرکھڑے ہیں بھارت اس محاذپردرجنو ں بار ہزیمتیں اٹھاچکاہے جس پرنادم ہونے کی بجائے شرانگیزیوں کے سلسلے کوتوسیع دیکر سات سمندرپارپہنچادیاکینیڈامیں سکھ راہنماہردیپ سنگھ کاقتل اسی سلسلے کی کڑی ہے یہی قتل اب کینیڈااوربھارت کے درمیان کشیدگی کاباعث بناہواہے واقعے پرامریکہ اوربرطانیہ نے بھی کینیڈاکی حمایت کی ہے حالانکہ اس سے قبل بھارتی میڈیادھڑلے سے یہ پروپیگنڈہ کرتارہاکہ امریکہ نے کینیڈاکے دعوے کومستردکردیاہے اورکینیڈین ہردلعزیز وزیراعظم جسٹن ٹروڈوکے مؤقف کوکمزورقراردیاہے جس پرامریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدر جوبائیڈن ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کے لوث ہونے کاجائزہ لے رہے ہیں بھارت اورکینیڈاکے درمیان کشیدگی میں یقیناًکینیڈاکا مؤقف مبنی برحق ہے اوردنیاکی امن پسنداقوام بلاشبہ کینیڈاکاساتھ دیں گی کیونکہ دنیاجانتی ہے کہ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے حوالے سے بھارت کاکردارکیاہے؟بھارت ایک دہشت گردملک ہے یہ داعش کانہ صرف ساتھ دے رہاہے بلکہ بھارت میں تربیت کی سہولت بھی فراہم کررہاہے اندرون ملک تو بھارت کی دہشت گردی پون صدی سے جاری ہے کشمیرمیں وہ ایک لاکھ سے زائدکشمیری مسلمانوں کوشہیدکر واچکاہے اس نے مقبوضہ کشمیرکودنیاکی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیاہے اسکی نولاکھ فوج کشمیرکامحاصرہ کئے ہوئے ہے گزشتہ پچھتربرس سے اس نے مقبوضہ کشمیرپرغیرقانونی،غیراخلاقی اوربلاجوازقبضہ جمارکھاہے وہاں کی آبادی کاتناسب بگاڑنے کیلئے اقدامات میں مصروف ہے اقوام متحدہ میں کئے گئے وعدے سے انحراف کرکے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرچکاہے، یو این قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورز ی کامرتکب ہورہاہے اوراسے پرکاہ برابراہمیت دینے پرتیارنہیں۔بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کودبانے کیلئے اس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں خالصتان موومنٹ کے مطابق اس نے ڈیڑھ لاکھ سے زائدسکھ قتل کئے ہیں اسکے علاوہ درجن بھرریاستوں میں آزادی کی جوتحریکیں چل رہی ہیں یہ بھارتی مظالم کالازمی نتیجہ ہے ان مظالم سے تنگ آکروہاں کے باشندے بھارت سے آزادی مانگ رہے ہیں مسلمانوں پرتوبھارتی سرزمین تنگ کردی گئی ہے، سکھوں کوتھوک کے حساب سے ماراجارہاہے،عیسائیوں کیلئے دنیاکاخطرنا ک ترین ملک بھارت ہے یہ تودیگرمذاہب کے حوالے سے بھارت کاظالمانہ روئیہ ہے انتہاپسندوں کے ظلم سے انکے ہم مذہب نچلی ذات کے ہندوبھی محفوظ نہیں اندرونی طورپربھارت دنیاکاسب سے بڑاعقوبت خانہ ہے جہاں نہ کسی فردکی زندگی محفوظ ہے اور نہ ہی جان ومال اورعزت آبروکی کوئی ضمانت ہے مگراب بھارت نے اپنی خونریزی کامشغلہ دنیاکے دیگرممالک تک پھیلادیاہے پاکستان میں اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پہلے ہی قتل وغارتگری کابازارگرم کررکھاہے اب اس خونریزی کوسات سمندرپارتک توسیع دی گئی ہے خونریزی اورقتل وغارت بھارتی پروڈکٹ بن چکی ہے تمام ممالک دنیامیں اپنی پیداواربھیج اوربیچ رہے ہیں بھارت کی پیداوارچونکہ قتل وغارت اورخونریزی ہے اس لئے اب وہ اسے دنیامیں ایکسپورٹ کررہاہے اقوام متحدہ اوردنیاکے ان خودساختہ تھانیداروں کواب ہوش کے ناخن لینے ہونگے وہ اپنی سرمایہ کاری اورغیرمشروط حمایت کے ذریعے اسے دنیاکاسب سے بڑادہشت گردبناچکے ہیں اب اسکے منہ کوخون لگ چکاہے وہ ڈریکولا کاروپ دھارچکاہے وہ پرامن اورمعصوم انسانوں کونگل رہاہے قتل وغارت اورخون بہانااس کاپسندیدہ مشغلہ ہے اس لئے اس نے کینیڈا جیسے دوردرازاورپرامن ملک کوبھی نہیں بخشاجوغریب ممالک کے تارکین وطن کیلئے کسی جنت سے کم نہیں آج بھارت نے کینیڈاکے امن کونقصان پہنچایاہے کل امریکہ سمیت کسی بھی اتحادی کوتختہء مشق بنایاجاسکتاہے امریکہ یورپ اوردنیاکے دیگرٹھیکیداروں کوخون آلودہواؤں کاادراک کرناہوگااگربھارت کی غیرمشروط حمایت ترک نہ کی گئی اسرائیل کیساتھ اسکے گٹھ جوڑکوتوڑانہیں گیاتوآج کینیڈاکل کوئی اورملک اسکی خونریزی کانشانہ بنے گا۔ہندوانتہاپسندی کولگام ڈالناہوگی ورنہ بھارتی دہشت گردی سات سمندرپارپہنچ چکی ہے اور وہ دیگرممالک میں قتل وغارتگری کابازارگرم کرچکاہے۔