images (1)

سانحہ اے پی ایس اور اس کے اثرات

عقیل یوسفزئی
16 دسمبر کا دن پاکستان بالخصوص پشاور کے لئے ایک ڈراونے خواب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ 2014 کو اس روز آرمی پبلک سکول پشاور کو بدترین دہشت گردی اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 132 بچوں سمیت 144 افراد شہید کئے گئے تھے جن میں اسکول کی پرنسپل بھی شامل تھیں. اس افسوسناک واقعہ کو گزرے 9 سال ہوگئے ہیں تاہم جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے پشاور سوگوار ہونا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ اس واقعہ کو بھلایا نہیں جاسکتا. آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے نے جہاں تاریخ میں اپنے نہ بھلانے والے انمٹ اثرات مرتب کیے وہاں اس سانحہ نے پاکستان کے عوام اور قیادت کو پہلی بار یہ احساس دلایا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے بغیر نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے. اس حملے میں کل 6 دہشت گرد ملوث تھے جن میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی. انہوں نے 16 دسمبر کے علی الصبح جدید ہتھیاروں سے سکول کی پچھلی دیوار پھلانگ کر معصوم بچوں کو چن چن کر شہید کردیا اور پرنسپل سمیت متعدد دیگر سٹاف ممبرز کو بھی نشانہ بنایا. صورت حال پر قابو پانے کیلئے ایس ایس جی نے ایک آپریشن لانچ کیا جس کے نتیجے میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا. دوسرے مرحلے میں مختلف اوقات میں حملے میں ملوث دیگر متعدد دہشت گردوں کو یا تو فورسز نے نشانہ بناکر ہلاک کیا یا متعدد کو پھانسی دے دی گئی. تاہم اس کیس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حملے میں ملوث ایک دہشت گرد کی پھانسی کی سزا ان کی ایک اپیل کے باعث معطل کردی اور وہ تاحال درکار سزا کا منتظر ہے. باقی 4کو فوجی عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا دی گئی.
بعد میں اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں تمام تفصیلات جاری کی جبکہ واقعہ کے پس منظر میں بعض مبینہ کوتاہیوں کے متعدد ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائیاں بھی کی گئیں. اسی روز پاکستان کی تمام سیاسی اور عسکری قیادت پشاور میں اکھٹی ہوگئی اور اس موقع پر نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں ایک جامع پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کا بنیادی مقصد ملک سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کو یقینی بنانا تھا. نیشنل ایکشن پلان ہی کے مینڈیٹ کے تناظر میں ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد فوجی آپریشن کئے گئے اور ہزاروں دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا جس کے نتیجے میں سال 2021 تک پاکستان میں کافی امن رہا تاہم جب اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان دوبارہ برسر اقتدار آئے تو پاکستان پر ہونے والے حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا کیونکہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کی باقاعدہ سرپرستی شروع کی اور پاکستان ایک بار پھر پوری تیاری اور شدت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرگرم عمل ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ 16 مئی کو بھلایا نہیں جاسکتا اور اس کی تلخ یادیں لمبے عرصے تک ذہنوں میں موجود رہیں گی تاہم پاکستان کی ریاست اور معاشرے نے ممکنہ حد تک کوشش کی کہ ملک سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور سب اسٹیک ہولڈرز ایک صفحہ پر ہو. اس وقت بھی پاکستان ایک فیصلہ کن جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اگر ایک طرف دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں تو دوسری طرف فورسز کی مسلسل کارروائیاں بھی جاری ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف رواں سال (2023) کے دوران مختلف آپریشنز کے نتیجے میں 550 سے زیادہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا. ماہرین کے مطابق 16 دسمبر کے اس ناقابل فراموش سانحہ نے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو نہ صرف ایک مربوط قومی بیانیہ کی تشکیل پر متفق کیا بلکہ اب بھی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کو شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سب سے موثر ترین دستاویز اور روڈ میپ سمجھا جاتا ہے.

Almost-100000-Children-Affected-by-Pneumonia-in-Khyber-Pakhtunkhwa

بہتر انٹی گریٹڈ ڈیزیز سرویلنس کے نفاذ سے پچھلے سال کی نسبت امسال نمونیا میں کمی آئی

بہتر انٹی گریٹڈ ڈیزیز سرویلنس کے نفاذ سے پچھلے سال کی نسبت امسال نمونیا میں کمی آئی ہے, سال 2022 کی نسبت امسال نمونیا کے کیسز میں واضح کمی واقع ہوئی ہے, پشاور انٹی گریٹڈ ڈیزیز سرویلنس اینڈ ریسپانس سسٹم کے بہتر نفاذ سے وباوں کے تدارک میں کافی بہتری آئی ہے, ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی

 سسٹم کی استعداد کار و صلاحیت کو مزید بہتر بنانے کی کوششیں کررہے ہیں، پچھلے سال پانچ سال سے کم عمر 1 لاکھ 27 ہزار بچوں میں نمونیا کی تشخیص ہوئی تھی، خیبر پختونخوا میں امسال پانچ سال سے کم عمر 93 ہزار بچے نمونیا سے متاثر ہوئے، رواں سال نمونیا کے سب سے زیادہ کیسز مردان میں 14 ہزار 900 رپورٹ ہوئے ، لوئر دیر میں پانچ سال کم عمر 12 ہزار بچے نمونیا سے متاثر ہوئے،  ہری پور میں نمونیا کے گیارہ ہزار، پشاور میں 9 ہزار، سوات میں 8 ہزار پانچ سو کیسز رپورٹ ہوئے، صوابی میں پانچ سال کم عمر 7 ہزار بچے، اپر دیر میں چار ہزار 500 بچے نمونیا سے مثاثر ہوئے۔ ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی

ECP

ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کےلئے الیکشن شیڈول آج رات بارہ بجے سے پہلے جاری کرنے کا فیصلہ

ذرائع کےمطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کا شیڈول آج رات ہی جاری کرنیکا فیصلہ کیا ہے ۔قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات ہوئی ۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سپریم کورٹ آئے اورانہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی۔ملاقات میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجازالاحسن موجود تھے،اٹارنی جنرل نے بھی ملاقات میں شرکت کی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے نے ججز کو لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناع سے آگاہ کیا۔ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس کی دعوت پر سپریم کورٹ آئے،ملاقات لاہور ہائیکورٹ کے ڈی آر اوز اور آر اوز سے متعلق حکم سے پیدا ہونیو الی صورتحال پر ہوئی،،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پہلے دو سینئر ججز سے ملاقات کی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا۔ لک بھر میں انتخابات 8 فروری 2024 کو منعقد ہوں گے. 20 سے 25 دسمبر تک امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں گے. امیدواروں کے ناموں کی فہرست 27 دسمبر کو جاری کی جائیگی۔

یکم جنوری سے 6 جنوری 2024 تک کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہوگی۔

9 جنوری 2024 کو کاغذات کی منظوری اور مسترد ہونے پر اپیلوں کی سماعت ہوگی۔

11 جنوری 2024 کو اپیلوں پر اپیلٹ اتھارٹی کے فیصلوں کا آخری روز ہوگا۔

15 جنوری 2024 کو امیدواروں کی نظرثانی فہرست جاری کی جائے گی۔

16 جنوری 2024 کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ ہوگی۔

17 جنوری 2024 کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہوں گے۔

جبکہ پولنگ ڈے 8 فروری 2024 بروز جمعرات کو ہوگی۔

army-chief-gen-asim-munir-is-chief

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ

جنرل سید عاصم منیر، نشانِ امتیاز (ملٹری) کے جاری امریکہ دورے کے دوران اہم امریکی حکومتی عہدیداروں اور عسکری حکام سے ملاقاتیں.

ان اہم ملاقاتوں میں انٹونی جے بلنکن(سیکرٹری آف سٹیٹ)، جنرل لائیڈ جے آسٹن (ریٹائرڈ) سیکرٹری دفاع کے ساتھ ساتھ وکٹوریہ نولینڈ(نائب وزیر خارجہ)، جوناتھن فائنر(نائب قومی سلامتی مشیر) اور جنرل چارلس کیو براؤن, چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف شامل ہیں.

ملاقاتوں میں دوطرفہ دلچسپی، عالمی اور علاقائی سلامتی کے باہمی امور کے ساتھ ساتھ جاری بین الاقوامی تنازعات پر تبادلہ خیال کیا گیا.

دونوں اطراف نے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے دوطرفہ تعاون کی ممکنہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا.

دفاعی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران انسداد دہشت گردی اور دفاعی تعاون کے شعبوں کو بنیادی اہمیت دی گئی.

دونوں سائیڈز نے باہمی دلچسپی کے اُمور پر بات چیت جاری رکھنے کا اعادہ کیا.

آرمی چیف نے علاقائی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور جنوبی ایشیا میں علاقائی سلامتی کو متاثر کرنے والے پہلوؤں پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا.

اس تناظر میں، آرمی چیف نے خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا.

آرمی چیف نے پاکستانی سفارتخانے کے زیر اہتمام استقبالیہ میں بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی کے ارکان سے بھی بات چیت کی.

آرمی چیف نے بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کی ملکی ترقی کے لیے کیے جانے والے مثبت کردار اور کوششوں کو سراہا.

آرمی چیف نے SIFC کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہُوئے بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی.

آرمی چیف نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ؛
”امریکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے جو ہماری کل برآمدات کا 21.5 فیصد ہے.

آرمی چیف نے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیئے ویزوں کی رکاوٹ، خصوصی اسکریننگ، اور اِس طرح کے دیگر گمراہ کن افواہوں کو رد کیا.

”پاکستان میں بیرون ملک پاکستانیوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے – بیرون ملک پاکستانی، پاکستان کے سفیر اور اثاثہ ہیں, (آرمی چیف)

آخر میں بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی نے کہا کہ افواج پاکستان ہمارا فخر ہیں اور افواج کی پاکستان کے لئیے خدمات کو سراہا – آرمی چیف نے بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی کے لئیے اپنی بہترین خواہشات کا اظہار کیا.

images

پشاورمیں غیرقانونی کاروبارسے وابستہ افغان باشندوں کی فہرست جاری

پشاور ریجن میں مشہور کاروباری افغان شخصیات میں سے بیشتر نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کئےہیں،

پشاور میں 56 افغان شہری غیررجسٹرڈ بڑے کاروبار سے منسلک ہے، جن میں 22 بڑے افغان کاروباری شخصیات نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کئے ہیں.
پشاور ریجن میں 31 بڑے افغان کاروباری شخصیات رجسٹرڈ کاروبارسے وابستہ ہے، 31 افغان کاروباری شخصیات پاکستانی شہریوں کے نام سے کاروبار کرتے ہیں، غیررجسٹرڈ افغان تاجرکاسمیٹکس، قالین، جوس شاپ،کتب خانے، ہوٹل،پراپرٹی،حوالہ ہنڈی اورچائے کے کاروبار سے منسلک ہے.
پشاور میں مقیم غیرقانونی افغان ملک کے دیگر شہروں اور دبئی میں بھی کاروبار سےوابستہ ہے، غیررجسٹرڈ افغان تاجروں نے معروف برانڈ کی کمپنیاں پاکستانی تاجروں کے نام لئے ہیں.

11022834

بھاری سپریم کورٹ کاانصاف سے عاری فیصلہ

وصال محمد خان
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے 5اگست 2019ء کومودی حکومت کے اقدامات پرمہرتصدیق ثبت کردی ہے جس کاواضح مطلب یہی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی مودی حکومت کی ہمنوابن گئی ہے اوراس نے ایک بین الاقوامی نوعیت کے معاملے کواپنے تئیں اندرونی طورپرحل کردیاہے جوکسی طورقابل قبول نہیں یہ فیصلہ دنیامیں مودی حکومت اورہندو تواکے پیروکاروں کے سواکسی کوبھی قبول نہیں ہوسکتاکشمیری عوام جواس معاملے کی بنیادی فریق ہے وہ اسے نہیں مانتے ،پاکستان بھی مسئلہ کشمیرکافریق ہے اسے یہ فیصلہ کسی صورت قابل قبول نہیں اوربین الاقوامی فورمزخصوصاًاقوام متحدہ اورسلامتی کونسل کی قراردادیں بھی اس فیصلے کی استردادکیلئے کافی ہیں وشافی ہیں ۔بھارتی عدلیہ کے حوالے سے چونکہ دعویٰ کیاجاتاہے کہ وہ آزادہے اورخودساختہ طورپردنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کی عدلیہ ہے اسلئے اسکے فیصلے ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق کاتحفظ کرتے ہیں مگرحالیہ فیصلے سے ثابت ہواکہ بھارتی عدلیہ بھی نریندرمودی کی طرح انتہاپسندہے اوربابری مسجدسمیت حالیہ فیصلہ انتہاپسندانہ سوچ کی عکاس ہے بھارتی سپریم کورٹ کوشائدیہ بھی علم نہیں کہ مقبوضہ کشمیربین الاقوامی فورمزیعنی اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل میں ایک متنازعہ علاقہ اورحل طلب معاملہ تسلیم کیاجاچکاہے اوربھارت بین الاقوامی برادری سے یہ وعدہ کرچکاہے کہ جیسے ہی مقبوضہ کشمیرکے حالات نارمل ہونگے وہاں حق خودارادیت دی جائیگی اورعوام یہ فیصلہ کرینگے کہ انہوں نے بھارت یاپاکستان میں سے کس کے پاس جاناہے بھارتی سپریم کورٹ کاحالیہ متنازعہ اورغیر منصفانہ فیصلہ یہ ثابت کرتاہے کہ یاتوبھارتی عدلیہ کوزمینی حقائق کاادراک نہیں وہ بھارتی حکومت کے بین الاقوامی معاہدوں اوروعدوں سے بے خبرہے یاپھراس نے بھی نریندرمودی کی طرح ہڑپ کرنے کاروئیہ اپنایاہواہے جب مقبوضہ کشمیرکے لوگ بھارت کیساتھ نہیں رہناچا ہتے ،وہ بھارتی قبضے میں خودکوغلام سمجھتے ہیں ،وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں ،انکی جدوجہدکسی بھارتی آرٹیکل کیلئے نہیں بلکہ بھارت سے آزادی اورخودمختاری کیلئے ہے ،وہ سمجھتے ہیں کہ انکی سرزمین پربھارت نے بزوربازواورشاطرانہ چالوں سے قبضہ کررکھاہے اوروہ غاصب بن کرکشمیریوں کاقتل عام کررہاہے توبھارتی سپریم کورٹ کوکیاحق ہے کہ وہ ایک کروڑکشمیریوں کوبھارت میں ضم کرنے جیسے غاصبانہ فیصلے پرمہرتصدیق ثبت کردے؟یہ بھارت کاکوئی اندرونی معاملہ نہیں یہ بین الاقوامی طورپرتسلیم شدہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے اورمقبوضہ کشمیرایک متنازعہ علاقہ ہے وہاں کے باشندے مسلمان ہیں اوروہ دیکھتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں پرزمین تنگ کردی گئی ہے انتہاپسندوں کے ہاتھوں انکی جان ومال عزت وآبرومحفوظ نہیں انکے ایک لاکھ ہم وطنوں کوبھارت قتل کرواچکاہے،ہزاروں پاکبازخواتین کی عصمتیں لوٹ چکاہے اورمعصوم بچوں کوپیلٹ گنوں کانشانہ بناکرمعذورکرواچکاہے تووہ کیونکربھارت یااسکی عدلیہ کے اس غیرمنصفانہ فیصلے کوتسلیم کرسکتے ہیں بھارتی سپریم کورٹ کسی ایسے معاملے پراپنافیصلہ دے سکتاہے جواس کے ملک کااندرونی معاملہ ہومقبوضہ کشمیرتوبھارت کااندرونی معاملہ نہیں یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ اورحل طلب معاملہ ہے جوبھارت خوداقوام متحدہ لے کرگیاتھااوراقوام متحدہ نے اسکے حوالے سے جوفیصلہ کیابھارت نے اسے بسروچشم تسلیم کیامگربعدمیں اس پرٹال مٹول سے کام لیتارہااورجب اس کابس چلااس نے اسے اپنے اندرضم کرلیادنیاکے کس خطے یابراعظم میں علاقے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت ضم ہوتے ہیں ؟سپریم کورٹ یاعدلیہ کاکام اس ملک کے باسیوں کو انصاف فراہم کرناہوتاہے ہندوتوا اورآرایس ایس کے پیروکاربن کرکسی متنازعہ علاقے کوملک کے اندرضم کرنے کافیصلہ کرنادنیاکے کسی عدلیہ کاکام نہیں بھارتی عدلیہ بھی انتہاپسندانہ روش پرگامزن ہے اس سے قبل اس نے بابری مسجدکے ضمن میں جومتناز عہ اورفضول فیصلہ دیااسکی گردابھی اڑرہی ہے اورمتمدن دنیا کویہ فیصلہ ہضم نہیں ہوپارہااوپرسے ایک اورمتنازعہ فیصلہ دے دیاگیاجویقیناًبین الاقوامی طورپربھارت کی جگ ہنسائی کامؤجب بنے گااس طرح اگرکسی ملک کاسپریم کورٹ علاقوں کواپنے ملک میں ضم کرنے کے فیصلے دیناشروع کردیں تودنیاکاکوئی ملک اپناوجودقائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگااوردنیامیں ایک مرتبہ پھرجنگ وجدل کابازارگرم ہوجائیگا۔ انصاف سے عاری اوربین الاقوامی اصول وضوابط سے عاری یہ فیصلہ موجودہ متمدن دنیاکے منہ پرکسی طمانچے سے کم نہیں اس ایک فیصلے سے بھارتی مکروہ عزائم اورانتہاپسندی کاپردہ چاک ہوجاتاہے اورغاصبانہ حمام کے اندروباہربھارت ننگاہوجاتاہے اوریہ ننگاپن کسی کپڑے سے ڈھکنے والانہیں بین الاقوامی اصول وضوابط کے خلاف یہ فیصلہ محض نریندرمودی اورہندووشواپریشدکیلئے قابل قبول ہے باقی دنیااسے کسی صورت قبول نہیں کرے گی کیونکہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ لے جانے والااوروہاں سے فیصلہ لینے والابھی بھارت ہی ہے یہ معاملہ اب پاکستان اوربھارت کااندرونی نہیں بلکہ بین الاقوامی طورپرحل طلب معاملہ ہے جس پراقوام متحدہ اورسلامتی کونسل نے مہرتصدیق ثبت کی ہے اب یہ بین الاقوامی برادری اورمتعلقہ فورمزکاامتحان ہے کہ وہ اس دنیاکوجس کی لاٹھی اسکی بھینس والے فارمولے کے تحت چلاناچاہتی ہے یاپھر اسے مسلمہ اور مروجہ بین الاقوامی اصولوں کاپابندبناناچاہتی ہے اس دنیاکوبھارتی انتہاپسندوں کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتاورنہ آج بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیرکواپنے اندرضم کردینے کافیصلہ صادرکیاہے کل لندن ،نیویارک ،ماسکو یاکسی اورآزادو خودمختارملک کے کسی علاقے کوبھارت کے اندرضم کردے گاممالک میں علاقے ضم کرناکسی کورٹ کاکام نہیں ہوتابلکہ اس لئے دیگران گنت عوامل درکار ہوتے ہیں بھارتی سپریم کورٹ کاحالیہ فیصلہ انتہاپسندہندوؤں کوقابل قبول ہوسکتاہے وہ خودکواس پرعملدرآمدکاپابندسمجھتے ہونگے مگراقوام متحدہ ،بین الاقوامی برادری اورپاکستان اس فیصلے کونہیں مانتے اورپاکستان انصاف سے عاری اس فیصلے اوراقدام کے خلاف متعلقہ فورمزسے رجوع کرنے کاحق محفوظ رکھتاہے ۔جہاں بھارت کوماضی کی طرح ندامت کاسامناکرناہوگا۔