خیبر پختونخوا کی 15 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا

خیبر پختونخوا کی 15 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا

خیبر پختونخوا کابینہ میں شامل ممبران نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاﺅس پشاور میں منعقد ہوئی۔ نومنتخب ممبران کابینہ سے حلف گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے لیا جبکہ اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور بھی موجود تھے۔ خیبر پختونخوا کیلئے 20 رکنی کابینہ تشکیل دی گئی ہے جس میں 15 وزراء اور 5مشیر شامل ہیں۔ حلف برداری کی تقریب میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ندیم اسلم چوہدری، آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپور اور دیگر انتظامی افسران نے شرکت کی۔

گورنر غلام علی نے خیبر پختونخوا حکومت کی نومنتخب کابینہ میں شامل ارشد ایوب، شکیل احمد، فضل حکیم، عدنان قادری، عاقب اللہ، محمد سجاد، مینہ خان، فضل شکور ، نذیر احمد عباسی، پختون یار، آفتاب عالم آفریدی، خلیق الرحمن، سید قاسم علی شاہ، فیصل ترکئی اور محمد ظاہر شاہ سے حلف لیا۔ اس موقع پر کابینہ ممبران نے عمران خان کی تصویر بھی میز پر رکھی تھی اور حلف برداری کے اختتام پر عمران خان کے حق میں نعرے بازی بھی کی گئی۔ واضح رہے کہ کابینہ میں 15 وزراء کے ساتھ ساتھ 5 مشیر بھی شامل ہیں جن میں سید فخر جہاں، مزمل اسلم،بیرسٹر محمد علی سیف، مشال اعظم اور زاہد چن زیب کو شامل کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مزمل اسلم ایک سے دو روز میں پشاور پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔

Inauguration of Modern Campus Management System in Islamia College University Peshawar.

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں جدید کیمپس منیجمنٹ سسٹم کا افتتاح  

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں جدید کیمپس منیجمنٹ سسٹم کا افتتاح  کیا گیا۔ سی ایم سی کی مدد سے یونیورسٹی نصابی اور انتظامی امور کو نمٹایا جائیگا ۔اس کی مدد سےدفتری امور، تنخواہیں، پیشن، فیس، حاضری، ہاسٹل، امتحانات اور نتائج سب ایک مرکزی خودکار نظام کے تحت چلانے میں معاون ثابت ہوگا۔ یہ نہ صرف یونیورسٹی نظام کی درستگی اور کارآمد بنانے میں مددگار ہوگا۔بلکہ طلباء کے نتائج کو گھر بیٹھے دیکھنے کا موقع ملے گا۔وائس چانسلر گل مجید خان نے اس موقع پر کنٹرولر آف ایگزامینیشن ڈاکٹر مشرف جیلانی، ڈائرکٹر آئی ٹی ڈاکٹر ضیاء الدین اور ان کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم، جنید محمود، امتیاز، ڈاکٹر عاقب علی، شاہ فیصل، علی شاہ اور دیگر ممبرز کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر سافٹ وئیر کے سی ای او جناب محمد فاروق عارف اور انکی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا گیا۔

bihar-rang-a-three-day-cultural-and-handicraft-exhibition-in-abbottabad-starting-from-march-8

ایبٹ آباد میں تین روزہ ثقافتی ودستکاری نمائش بہار رنگ  8مارچ سے شروع

ڈسٹرکٹ بار  کلب ایبٹ آباد میں تین روزہ ثقافتی ودستکاری نمائش بہار رنگ  8مارچ سے شروع ہو گی۔سپرنگ فیسٹیول میں ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء ،ملبوسات، ظروف، لکڑی سے بنی منفرد اشیاء،بہالپوری دستکاری ، بلیو پوٹری ،اونٹ کی کھال پر کام ،کروٹ پکا کا ہنر ،موتیوں کے فن پارے کی نمائش 10مارچ تک جا ری رہے گی ۔جو صبح 10بجے سے شام 8بجے تک لگائی جائے گی۔ایڈیشنل سیکرٹری ہائیکورٹ رابعہ گل ایڈوکیٹ کی زیر نگرانی 3 روزہ نمائش کے انعقاد کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں ۔جس میں ملک کے مختلف بڑے صنعتی شہروں سے معروف برینڈ کے منتظمین اپنا سٹال لگائیں گے۔ 3 روزہ نمائش میں ایبٹ آباد کے شہری اور خواتین وحضرات بھرپور انداز میں شریک ہو سکتے ہیں۔نمائش کی کامیابی کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔

A journey from armed terrorism to digital terrorism

مسلح دہشت گردی سے ڈیجیٹل دہشت گردی تک کا سفر

عقیل یوسفزئی
پاکستان کے دفاعی ریاستی اداروں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام اور پاکستان کے اندر 9 مئی کے واقعات کے بعد جہاں مختلف محاذوں پر عجیب وغریب چیلنجز کا سامنا کیا وہاں ریاست کو بدترین قسم کے اسپانسرڈ پروپیگنڈا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال میں متعدد پالیسیاں اختیار کی گئیں مگر منفی اور جھوٹے پروپگنڈے کو بوجوہ قابو نہیں کیا جاسکا کیونکہ اس کی شدت اور اس پر ہونے والی سرمایہ کاری لامحدود رہیں۔
6 مارچ کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 263 ویں کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کو درپیش شدت پسندی اور سیاسی شرپسندی پر نہ صرف یہ کہ تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ فورسز کو تمام معاملات کا پورا ادراک ہے بلکہ واضح انداز میں فیصلہ کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان ، ان کی سہولت کاروں ، دہشت گرد گروپوں اور منفی پروپیگنڈا کے ذریعے ملک خصوصاً سیکورٹی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور مایوسی پھیلانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیلڈ کمانڈرز دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مزید اضافہ لائیں۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق فورم نے دوڈوک انداز میں واضح کیا کہ جو عناصر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں ان کو معاف نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان کی سلامتی ، امن اور استحکام کو یقینی بنانے کا نہ صرف یہ کہ عسکری قیادت کو پورا ادراک ہے بلکہ فورسز منفی قوتوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
مذکورہ بیانیہ یا پالیسی کو جہاں مستقبل کے منظر نامے میں بہت اہمیت دی گئی وہاں سب پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بعض سیاسی قوتوں ، پروپیگنڈا مشینری اور دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف بعض حلقوں کے دباؤ اور توقعات کے برعکس زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس ضمن میں کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی۔ اس تمام صورتحال کے دوران ملک میں ڈیجیٹل دہشت گردی کی اصطلاح بھی سامنے آئی جس کی تشریح کچھ یوں کی گئی کہ پاکستان کو مختلف محاذوں پر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی کی ایک نئی جنگ کا سامنا رہا اور یہ کہ اس جنگ کا مقصد منفی پروپیگنڈا کے ذریعے پاکستان کو ایک جنگ زدہ اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ایسا ملک قرار دینا ہے جو کہ بکھر سکتا ہے۔ بعض ماہرین نے اس جنگ کو جاری روایتی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک قرار دیا تو متعدد کا موقف رہا کہ اس تمام گیم اور سرکاری کاری کے پیچھے بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کا ہاتھ ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں اس جانب بھی پیغام دیا گیا اور کہا گیا کہ 6 فروری کے عام انتخابات میں فورسز کا کردار سیکورٹی فراہم کرنے تک محدود تھا اور ان الزامات اور پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ فورسز انتخابی عمل یا نتائج پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ اس سے قبل نومنتخب پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ محمود خان اچکزئی اور بعض دیگر قوم پرستوں نے بھی فورسز پر انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات لگائے جبکہ اس پارٹی کے نئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے پہلے بیان میں جہاں پولیس فورس اور بیوروکریسی کو 9 مئ کے واقعات کے تناظر میں کھلے عام دھمکی دی بلکہ انہوں نے 6 مارچ ہی کے روز آڈیالہ جیل میں قید اپنے لیڈر عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ چونکہ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتے اس لیے وہ ان کے ساتھ نہیں بھیٹیں گے۔ یہ اس جانب واضح اعلان تھا کہ ایک بار پھر جنگ زدہ پختونخوا کو ایک مخصوص ذہنیت کے حامل لیڈر کے سیاسی مقاصد اور دباؤ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے سربراہ کے ایسے بیانات سے امن پسند حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی بلکہ پولیس اور بیوروکریسی میں بھی عدم تحفظ کا احساس جنم لینے لگا اور اسی پیش منظر میں بعض حلقوں کی جانب سے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی بحث بھی چلنے لگی۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماہ فروری میں خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں فورسز نے 95 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جس کے نتیجے میں 75 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 55 افراد کا تعلق کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بتایا گیا۔ یہ تفصیل بھی اس دوران سامنے آئی کہ زیادہ تر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کی ۔ رپورٹ کے مطابق فروری 2024 کے دوران سب سے زیادہ آپریشن شمالی وزیرستان میں کیے گئے جن کی تعداد 14۔ ڈی آئی خان دوسرے نمبر پر رہا جہاں فروری میں 12 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔ ٹانک اور بنوں میں بھی تقریباً اتنی ہی کارروائیاں کی گئیں۔ اس رپورٹ سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع میں فورسز اور عوام کو حالت جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایسے میں کالعدم تحریک طالبان اور عبوری افغان حکومت کے لئے ماضی میں ہمدردی رکھنے والی پارٹی کا صوبہ خیبر پختونخوا میں پھر سے اقتدار میں آنا بہت سی مشکلات پیدا کا سبب سمجھا گیا۔
اس دوران ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ جمیعت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے ایک وفد نے سابق ایم این اے اور مرحوم مولانا سمیع الحق کے صاحب زادے مولانا حامد الحق کی قیادت میں افغانستان کا ایک دورہ کیا جس کے دوران اس وفد سے ملاقات کرنے والے افغان وزرا اور لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی قیمت پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ کہ افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر تشویش لاحق ہے تاہم ان کے بقول اس سلسلے کو روکنے میں انہیں بعض اندرونی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ وفد میں شامل ممتاز مذہبی اسکالر محمد اسرار مدنی نے ریڈیو سنو پختونخوا کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کچھ یوں کہا
“ہم نے متعدد وزیروں ، اہم حکومتی حکام اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سمیت متعدد اہم لوگوں سے اپنے دورے کے دوران تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں اسلامی اور پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے اس کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں دوسری جانب سے ہماری تشویش اور تجاویز کا خیر مقدم کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی موجودہ قیادت اور حکومت اس بات کی قائل ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے تاہم تمام لیڈرز اور وزراء نے بعض اندرونی معاملات اور مشکلات کا ذکر کیا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ٹی ٹی پی کے مسئلے پر وہ پاکستان کے خدشات اور مطالبات کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے نتیجے میں موجود کشیدگی اور تلخی کا خاتمہ ممکن ہوسکے”۔
اس ضمن میں سابق نگران وفاقی وزیر اور عالمی شہرت یافتہ ڈایریکٹر جمال شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور سی پیک سمیت متعدد دیگر اہم پراجیکٹس کو سبوتاژ کرنے کی پالیسی اور کوششوں پر عمل پیرا ہیں اور پاکستان کو اسی تناظر میں دہشت گردی کے علاوہ ایک منظم پروپیگنڈا وار کا بھی سامنا ہے۔ جمال شاہ کے مطابق پاکستان ان مسائل سے بعض کمزوریوں اور چیلنجر کے باوجود نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم افسوسناک آمر یہ ہے کہ جاری جنگ سے دو اہم صوبے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اس پر ستم یہ کہ خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے جو کہ نہ صرف شدت پسندوں کی حامی رہی ہے بلکہ 9 مئی کے واقعات کی شرپسندی میں بھی براہ راست ملوث رہی۔ ان کے بقول اس تمام صورتحال میں چین اور روس جیسے اہم ممالک کا پرو پاکستان رول اور غیر معمولی دلچسپی انتہائی اہم ہے اس لیے توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس جنگ میں اکیلا نہیں ہوگا اور افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات اور معاملات جلد بہتر ہو جایئں گے۔
سینیر تجزیہ کار حسن خان کے مطابق پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کو متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دہشت گردی ، سیاسی شر پسندی اور بیڈ گورننس سرفہرت ہیں تاہم اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس جنگ زدہ صوبے کو ایک بار پھر عمران خان کے سیاسی اور شخصی مفادات کے لیے وفاقی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر ہوگی بلکہ صوبے کے معاشی اور انتظامی معاملات بھی بگڑیں گے۔ ان کے بقول افغانستان کے حکمرانوں ، میڈیا اور عوام کی طرح پاکستان کے بعض قوم پرست حلقے اور اب تحریک انصاف بھی تمام مسائل کی ذمہ داری پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس صورتحال سے دیگر پاکستان مخالف قوتیں بھی فایدہ اٹھاتی آرہی ہیں۔ اس سلسلے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ معاملات کو درست کیا جائے۔ سینیئر تجزیہ کار عارف یوسفزئی کے مطابق پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیاں چند محدود خاندانوں اور گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے رویہ پر عمل پیرا ہیں اور جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو یہ ملک اور عوام کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ سیکورٹی چیلنجز اور معاشی استحکام سے متعلق اہم ایشوز پر بھی وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی جس کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کی مہم معاملات کو پیچیدہ اور مشکوک بنانے کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس رویے کو حقیقت پسندانہ انداز میں ڈیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اندونی استحکام اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اس تمام صورتحال میں یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی کہ پاکستان کو مختلف چیلنجر کے باوجود بعض بنیادی مثبت آپشنز بھی دستیاب ہیں اور اگر بعض غیر مروجہ اور غیر مقبول فیصلوں کا رسک لیا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ ان فیصلوں میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کی روک تھام کا اقدام سرفہرت ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست اور معاشرت کو اس بے لگام سلسلے نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور شاید اسی تناظر میں نہ صرف یہ کہ کور کمانڈر کانفرنس میں واضح موقف لیا گیا بلکہ بعض سنجیدہ حلقے بھی سوشل میڈیا کے کے لیے بعض سخت شرائط طے کرنے کو ناگزیر قرار دیتے دکھائی دیے۔

KPK CM history

خیبرپختونخواکے وزرائے اعلی

وصال محمد خان
صوبہ خیبرپختونخواکے 87سالہ تاریخ میں 30وزرائے اعلیٰ گزرے ہیں۔ ماضی میں صوبے کانام شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا جسے عرف عام میں صوبہ سرحدکہاجاتاتھا، 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہ نام بدل کرخیبرپختونخوارکھاگیا۔ اس صوبے کے اولین وزیراعلیٰ سرصاحبزادہ عبدالقیوم خان تھے جو یکم اپریل 1937سے 7دسمبر1937ء تک صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ رہے۔ باچاخان کے بھائی عبدالجبار خان المعروف ڈاکٹرخان صیب نے7دسمبر1937میں صوبے کے دوسرے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں اور9 نومبر1939ء تک عہدے پر فائزرہے۔ ڈاکٹرخان صاحب قیام پاکستان سے قبل اوربعدمیں مجموعی طورپرتین باراس عہدہ پرفائزرہے۔ 10نومبر1939ء سے24 اپریل 1943ء تک صوبے میں گورنرراج نافذرہا۔ سرداراورنگزیب خان صوبے کے تیسرے وزیراعلیٰ تھے۔ انکی مدت25مئی 1943ء سے 16مارچ 1945ء تک رہی۔ ڈاکٹرخان صیب دوسری مرتبہ 16مارچ1945ء کو چوتھے وزیراعلیٰ صوبہ سرحدبنے انکی یہ باری13 اگست1947تک رہی۔ 14اگست1947ء کوقیام پاکستان کے بعداسی دن ڈاکٹرخان صیب نے تیسری مرتبہ مجموعی طورپرصوبے کے پانچویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایااورصرف 9دن 22اگست1947ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ صوبہ کے چھٹے وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان تھے جو 23اگست 1947سے 23اپریل1953ء تک سب سے زیادہ عرصہ یعنی 5سال 8ماہ عہدے پرفائزرہے ۔صوبے کے ساتویں وزیراعلیٰ سردارعبدلرشیدتھے جن کادورانیہ23اپریل1953ء سے18جولائی1955ء تک رہا۔ سرداربہادرخان صوبے کے آٹھویں وزیراعلیٰ تھے جو19جولائی1955سے13اکتوبر1955ء تک عہدے پرفائزرہے۔ 14اکتوبر1955ء سے30اکتوبر 1958ء تک ون یونٹ نافذرہا۔یعنی صوبے ختم کرکے پورے ملک کوایک یونٹ میں تبدیل کردیاگیا۔صوبے کی حیثیت بحال کرنے کیلئے باچاخان اورانکے ساتھیوں نے طویل اورصبرآزماجدوجہدکے دوران قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں۔بعدمیں عمرایوب کے داداجنرل ایوب خان نے پورے ملک میں مارشل لاء نافذکیاجس کے اختتام پرجنرل یحییٰ خان کامارشل لاء آیا۔1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعدمولانافضل الرحمان کے والدمفتی محمودنے یکم مئی1972ء کوصوبے کے نویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایاانہیں نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی وہ21فروری1973ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ سردارعنایت اللہ گنڈاپور29 اپریل1973ء سے16فرور ی1975تک صوبے کے دسویں وزیراعلیٰ رہے۔ 17فروری1975ء سے 3مئی1975تک وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے صوبہ سرحدمیں گورنرراج نافذکیا۔ جس کے اختتام پرپرویزخٹک کے قریبی رشتے دارنصراللہ خٹک صوبے کے 11ویں وزیراعلیٰ بنے ان کادورا نیہ3مئی1975سے9اپریل1977ء تک رہا۔ محمداقبال خان جدون9اپریل1977ء سے ضیاء الحق کے مارشل لا5جولائی1977 تک تقریباًتین ماہ کیلئے صوبے کے بارہویں وزیراعلیٰ رہے ۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابا ت کے نتیجے میں ارباب جہانگیرخان نے 7 اپریل1985ء کووزارت اعلیٰ کاعہدہ سنبھالاوہ30مئی1988ء تک صوبے کے13ویں وزیراعلیٰ رہے۔ 31مئی 1988سے2 دسمبر1988تک جنرل (ر)فضل حق بطورنگران پہلے جبکہ صوبے کے14ویں وزیراعلیٰ تھے۔ 2دسمبر1988ء کوپیپلزپارٹی کے آفتاب شیرپاؤاے این پی کے اشتراک سے 15ویں وزیراعلیٰ بنے جو6اگست1990ء تک عہدے پرفائزرہے۔ 7اگست1990ء سے 19 جولائی1993تک میرافضل خان آئی جے آئی اوراے این پی کے مشترکہ طورپرصو بے کے 16ویں وزیراعلیٰ رہے انہوں نے بطورنگران ذمہ داریاں سنبھالی تھیں بعدمیں انہیں منتخب کیاگیا۔ 19جولائی1993سے19 اکتوبر1993تک مفتی عباس صوبے کے 17ویں جبکہ تیسرے نگران وزیراعلیٰ رہے ۔ 19اکتوبر1993ء سے 25فروری1994ء تک پیرصابرشا ہ چارماہ کیلئے صوبے کے18ویں وزیراعلیٰ رہے وزیراعظم بینظیربھٹو نے گورنرراج نافذکرکے انکی حکومت کاخاتمہ کیا۔ دوماہ تک گورنرراج نافذرہنے کے بعد24اپریل1994کو آفتاب شیرپاؤدوسری مرتبہ صوبے کے19ویں وزیر اعلیٰ بنے اور12نومبر1996ء تک عہدے پرفائزرہے۔ راجہ سکندرزمان 12نو مبر1996سے21فروری1997تک چوتھے نگران جبکہ مجموعی طورپر20ویں وزیراعلیٰ رہے۔ سردارمہتاب عباسی21فروری1997 سے14اکتوبر1999 ء تک 21ویں وزیر اعلیٰ رہے۔ ایم ایم اے کے اکرم درانی 30نومبر2002ء سے8اکتوبر2007ء تک22 ویں وزیراعلیٰ رہے۔ انجینئرشمس الملک11اکتوبر2007سے یکم اپریل2008ء تک 5ویں نگران جبکہ 23ویں وزیراعلیٰ رہے۔ اے این پی کے امیرحیدرہوتی یکم اپریل2008سے 20مارچ2013ء تک صوبے کے 24ویں وزیراعلیٰ رہے۔ جسٹس(ر)طارق پرویز 20مارچ2013ء سے31 مئی2013ء تک چھٹے نگران جبکہ صوبے کے25ویں وزیراعلیٰ رہے۔پرویزخٹک تحریک انصاف کے پہلے اورصوبے کے26ویں وزیر اعلیٰ رہے ان کادورانیہ31مئی 2013ء سے 6جون2018ء تک رہا۔ 7ویں نگران اورصوبہ کے27 ویں وزیراعلیٰ جسٹس (ر) دوست محمدخان تھے جو6جون2018سے 17اگست 2018ء تک عہدے پرمتمکن رہے۔ تحریک انصاف کے دوسرے اورصوبے کے28 ویں وزیراعلیٰ محمودخان نے 17اگست2018ء سے21جنوری2023ء تک ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 8 ویں نگران جبکہ صوبے کے 29ویں وزیراعلیٰ سابق بیوروکریٹ اعظم خان نے21جنوری کوعہدہ سنبھالا۔ 11 نومبر2023ء کوان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے بطورِ نگران وزیراعلیٰ9ماہ20دن تک کام کرکے جنرل(ر) فضل حق کاریکارڈتوڑدیا۔جو 6ماہ 2دن تک عہدے پرفائزرہ چکے ہیں۔جسٹس (ر) ارشدحسین شاہ نے12نومبر2023ء کواعظم خان کی وفات پرعہدہ سنبھالا۔ وہ رواں ماہ کی2تاریخ تک خدمات انجام دیتے رہے وہ صوبے کے 9ویں نگران جبکہ مجموعی طورپر30ویں وزیراعلیٰ تھے ۔ 2مارچ کوصوبے کے 31ویں وزیراعلیٰ ،علی امین گنڈاپورکے حلف لینے پروہ سبکدوش ہوئے۔

100 year old Hindu religious building demolished in Swabi

صوابی میں 100 سالہ پرانی ہندو مذہبی عمارت مسمار

خیبر پختو نخوا ضلع صوابی کے  علاقہ ڈاگئی میں 100 سالہ پرانی ہندووں کی مذہب گاہ تھی۔محکمہ اوقاف نے اس پرانی عمارت کو مسمار کرنے کی منظوری دیدی۔ پرانی عمارت کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پرانی تاریخی عمارت کی مسماری سے ضلعی انتظامیہ لاعلم ہیں۔ اس عمارت کو مسماری سے بچایا جائے اور آثار قدیمہ قرار دیا جائے۔ مقامی عوام کا مطالبہ۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس پرانی عمارت میں قیمتی نوادرات ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی ورثہ ہے اور اسکو مسماری سے بچایا جائے۔ عوام کا مطالبہ۔ ہم محکمہ اوقاف کو درخواست دی ہے کہ اسکی مرمت کی جائیں تاکہ قیمتی ورثہ محفوظ بنایا جائے۔مقامی افراد کا موقف