مسلح دہشت گردی سے ڈیجیٹل دہشت گردی تک کا سفر

عقیل یوسفزئی
پاکستان کے دفاعی ریاستی اداروں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام اور پاکستان کے اندر 9 مئی کے واقعات کے بعد جہاں مختلف محاذوں پر عجیب وغریب چیلنجز کا سامنا کیا وہاں ریاست کو بدترین قسم کے اسپانسرڈ پروپیگنڈا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال میں متعدد پالیسیاں اختیار کی گئیں مگر منفی اور جھوٹے پروپگنڈے کو بوجوہ قابو نہیں کیا جاسکا کیونکہ اس کی شدت اور اس پر ہونے والی سرمایہ کاری لامحدود رہیں۔
6 مارچ کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 263 ویں کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کو درپیش شدت پسندی اور سیاسی شرپسندی پر نہ صرف یہ کہ تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ فورسز کو تمام معاملات کا پورا ادراک ہے بلکہ واضح انداز میں فیصلہ کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان ، ان کی سہولت کاروں ، دہشت گرد گروپوں اور منفی پروپیگنڈا کے ذریعے ملک خصوصاً سیکورٹی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور مایوسی پھیلانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیلڈ کمانڈرز دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مزید اضافہ لائیں۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق فورم نے دوڈوک انداز میں واضح کیا کہ جو عناصر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں ان کو معاف نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان کی سلامتی ، امن اور استحکام کو یقینی بنانے کا نہ صرف یہ کہ عسکری قیادت کو پورا ادراک ہے بلکہ فورسز منفی قوتوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
مذکورہ بیانیہ یا پالیسی کو جہاں مستقبل کے منظر نامے میں بہت اہمیت دی گئی وہاں سب پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بعض سیاسی قوتوں ، پروپیگنڈا مشینری اور دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف بعض حلقوں کے دباؤ اور توقعات کے برعکس زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس ضمن میں کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی۔ اس تمام صورتحال کے دوران ملک میں ڈیجیٹل دہشت گردی کی اصطلاح بھی سامنے آئی جس کی تشریح کچھ یوں کی گئی کہ پاکستان کو مختلف محاذوں پر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی کی ایک نئی جنگ کا سامنا رہا اور یہ کہ اس جنگ کا مقصد منفی پروپیگنڈا کے ذریعے پاکستان کو ایک جنگ زدہ اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ایسا ملک قرار دینا ہے جو کہ بکھر سکتا ہے۔ بعض ماہرین نے اس جنگ کو جاری روایتی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک قرار دیا تو متعدد کا موقف رہا کہ اس تمام گیم اور سرکاری کاری کے پیچھے بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کا ہاتھ ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں اس جانب بھی پیغام دیا گیا اور کہا گیا کہ 6 فروری کے عام انتخابات میں فورسز کا کردار سیکورٹی فراہم کرنے تک محدود تھا اور ان الزامات اور پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ فورسز انتخابی عمل یا نتائج پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ اس سے قبل نومنتخب پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ محمود خان اچکزئی اور بعض دیگر قوم پرستوں نے بھی فورسز پر انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات لگائے جبکہ اس پارٹی کے نئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے پہلے بیان میں جہاں پولیس فورس اور بیوروکریسی کو 9 مئ کے واقعات کے تناظر میں کھلے عام دھمکی دی بلکہ انہوں نے 6 مارچ ہی کے روز آڈیالہ جیل میں قید اپنے لیڈر عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ چونکہ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتے اس لیے وہ ان کے ساتھ نہیں بھیٹیں گے۔ یہ اس جانب واضح اعلان تھا کہ ایک بار پھر جنگ زدہ پختونخوا کو ایک مخصوص ذہنیت کے حامل لیڈر کے سیاسی مقاصد اور دباؤ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے سربراہ کے ایسے بیانات سے امن پسند حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی بلکہ پولیس اور بیوروکریسی میں بھی عدم تحفظ کا احساس جنم لینے لگا اور اسی پیش منظر میں بعض حلقوں کی جانب سے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی بحث بھی چلنے لگی۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماہ فروری میں خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں فورسز نے 95 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جس کے نتیجے میں 75 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 55 افراد کا تعلق کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بتایا گیا۔ یہ تفصیل بھی اس دوران سامنے آئی کہ زیادہ تر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کی ۔ رپورٹ کے مطابق فروری 2024 کے دوران سب سے زیادہ آپریشن شمالی وزیرستان میں کیے گئے جن کی تعداد 14۔ ڈی آئی خان دوسرے نمبر پر رہا جہاں فروری میں 12 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔ ٹانک اور بنوں میں بھی تقریباً اتنی ہی کارروائیاں کی گئیں۔ اس رپورٹ سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع میں فورسز اور عوام کو حالت جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایسے میں کالعدم تحریک طالبان اور عبوری افغان حکومت کے لئے ماضی میں ہمدردی رکھنے والی پارٹی کا صوبہ خیبر پختونخوا میں پھر سے اقتدار میں آنا بہت سی مشکلات پیدا کا سبب سمجھا گیا۔
اس دوران ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ جمیعت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے ایک وفد نے سابق ایم این اے اور مرحوم مولانا سمیع الحق کے صاحب زادے مولانا حامد الحق کی قیادت میں افغانستان کا ایک دورہ کیا جس کے دوران اس وفد سے ملاقات کرنے والے افغان وزرا اور لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی قیمت پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ کہ افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر تشویش لاحق ہے تاہم ان کے بقول اس سلسلے کو روکنے میں انہیں بعض اندرونی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ وفد میں شامل ممتاز مذہبی اسکالر محمد اسرار مدنی نے ریڈیو سنو پختونخوا کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کچھ یوں کہا
“ہم نے متعدد وزیروں ، اہم حکومتی حکام اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سمیت متعدد اہم لوگوں سے اپنے دورے کے دوران تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں اسلامی اور پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے اس کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں دوسری جانب سے ہماری تشویش اور تجاویز کا خیر مقدم کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی موجودہ قیادت اور حکومت اس بات کی قائل ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے تاہم تمام لیڈرز اور وزراء نے بعض اندرونی معاملات اور مشکلات کا ذکر کیا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ٹی ٹی پی کے مسئلے پر وہ پاکستان کے خدشات اور مطالبات کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے نتیجے میں موجود کشیدگی اور تلخی کا خاتمہ ممکن ہوسکے”۔
اس ضمن میں سابق نگران وفاقی وزیر اور عالمی شہرت یافتہ ڈایریکٹر جمال شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور سی پیک سمیت متعدد دیگر اہم پراجیکٹس کو سبوتاژ کرنے کی پالیسی اور کوششوں پر عمل پیرا ہیں اور پاکستان کو اسی تناظر میں دہشت گردی کے علاوہ ایک منظم پروپیگنڈا وار کا بھی سامنا ہے۔ جمال شاہ کے مطابق پاکستان ان مسائل سے بعض کمزوریوں اور چیلنجر کے باوجود نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم افسوسناک آمر یہ ہے کہ جاری جنگ سے دو اہم صوبے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اس پر ستم یہ کہ خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے جو کہ نہ صرف شدت پسندوں کی حامی رہی ہے بلکہ 9 مئی کے واقعات کی شرپسندی میں بھی براہ راست ملوث رہی۔ ان کے بقول اس تمام صورتحال میں چین اور روس جیسے اہم ممالک کا پرو پاکستان رول اور غیر معمولی دلچسپی انتہائی اہم ہے اس لیے توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس جنگ میں اکیلا نہیں ہوگا اور افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات اور معاملات جلد بہتر ہو جایئں گے۔
سینیر تجزیہ کار حسن خان کے مطابق پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کو متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دہشت گردی ، سیاسی شر پسندی اور بیڈ گورننس سرفہرت ہیں تاہم اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس جنگ زدہ صوبے کو ایک بار پھر عمران خان کے سیاسی اور شخصی مفادات کے لیے وفاقی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر ہوگی بلکہ صوبے کے معاشی اور انتظامی معاملات بھی بگڑیں گے۔ ان کے بقول افغانستان کے حکمرانوں ، میڈیا اور عوام کی طرح پاکستان کے بعض قوم پرست حلقے اور اب تحریک انصاف بھی تمام مسائل کی ذمہ داری پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس صورتحال سے دیگر پاکستان مخالف قوتیں بھی فایدہ اٹھاتی آرہی ہیں۔ اس سلسلے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ معاملات کو درست کیا جائے۔ سینیئر تجزیہ کار عارف یوسفزئی کے مطابق پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیاں چند محدود خاندانوں اور گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے رویہ پر عمل پیرا ہیں اور جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو یہ ملک اور عوام کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ سیکورٹی چیلنجز اور معاشی استحکام سے متعلق اہم ایشوز پر بھی وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی جس کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کی مہم معاملات کو پیچیدہ اور مشکوک بنانے کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس رویے کو حقیقت پسندانہ انداز میں ڈیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اندونی استحکام اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اس تمام صورتحال میں یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی کہ پاکستان کو مختلف چیلنجر کے باوجود بعض بنیادی مثبت آپشنز بھی دستیاب ہیں اور اگر بعض غیر مروجہ اور غیر مقبول فیصلوں کا رسک لیا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ ان فیصلوں میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کی روک تھام کا اقدام سرفہرت ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست اور معاشرت کو اس بے لگام سلسلے نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور شاید اسی تناظر میں نہ صرف یہ کہ کور کمانڈر کانفرنس میں واضح موقف لیا گیا بلکہ بعض سنجیدہ حلقے بھی سوشل میڈیا کے کے لیے بعض سخت شرائط طے کرنے کو ناگزیر قرار دیتے دکھائی دیے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket