عقیل یوسفزئی
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز متعدد اہم وزراء اور پی ڈی ایم اے سمیت دیگر اداروں کے سربراہان کے ہمراہ پشاور کا اہم دورہ کرتے ہوئے حالیہ بارشوں اور برفباری سے متاثرہ افراد اور خاندانوں میں امدادی چیک تقسیم کئے اور متاثرہ علاقوں کی انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان پر بریفننگ لیکر بحالی سے متعلق اہم اور فوری ہدایات جاری کیں۔ دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد یہ پشاور کا ان کا پہلا دورہ تھا جس سے جنگ زدہ صوبے کے عوام کو بہت اچھا پیغام دیا گیا۔ اس سے ایک روز قبل وہ گوادر کے ہنگامی دورے پر گئے جہاں حالیہ بارشوں نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہاں بھی وزیراعظم نے متعدد عملی اقدامات کے نہ صرف اعلانات کیے بلکہ گوادر اور دیگر علاقوں میں موجود مسائل کے حل کے لئے صوبائی حکومت سے تجاویز پر مبنی ایک رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اس سے قبل جب انہوں نے عدم اعتماد کے نتیجے میں چارج سنبھال لیا تو بھی انہوں نے نہ صرف خیبرپختونخوا کے ریکارڈ دورے کیے تھے بلکہ انہوں نے اپنا پہلا دورہ وزیرستان کا رکھا تھا جہاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ سیکورٹی کی صورتحال کے علاوہ علاقے کی تعمیر وترقی کے ایک ہنگامی پیکج کا اعلان بھی کیا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے اعلان اور اپنے قائد کی “ہدایات” کے تناظر میں وزیراعظم کا نہ تو استقبال کیا اور نہ ہی انہوں نے اس اہم اجلاس ، ایونٹ میں شرکت کی جس میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم شریک ہوئی۔ اس ضمن میں جب ایک نیوز چینل نے نئی صوبائی کابینہ کے ایک وزیر ظاہر شاہ طورو سے رابطہ کیا تو موصوف نے موقف اپنایا کہ وہ اور ان کی حکومت شہباز شریف کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتے اس لیے یہ رویہ اختیار کیا گیا۔ اس طرزِ عمل کو صوبے کے مخصوص حالات کے تناظر میں کسی بھی دلیل کی بنیاد پر مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ صوبائی حکومت کو قدم قدم پر اپنے معاملات چلانے کے لیے وفاقی حکومت کی مدد اور فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور آگے چل کر صوبائی حکومت کے مسائل میں مزید اضافے کے خدشات اس طرزِ عمل کے باعث یقین میں بدلتے نظر آنے لگے ہیں۔
اسی روز گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبائی کابینہ کے 15 رکنی سکواڈ سے حلف لیا یوں یہ مرحلہ طے پایا گیا تاہم دوسروں کے علاوہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کی جانب سے بھی وزراء اور معاونین کی فہرست پر اعتراضات سامنے آنا شروع ہوگئے اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ بعض اہم علاقوں کو نمایندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ اور سینیئر رہنما کابینہ کے انتخاب کو چیئرمین عمران خان کا فیصلہ قرار دیتے رہے اور حقیقت میں ہوگا بھی اس طرح تاہم نئے سکواڈ میں بعض اہم لیڈرز کو خلاف توقع بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ یہ حضرات دعویٰ کرتے ہوئے میڈیا کو مسلسل اطلاعات فراہم کرتے رہے کہ وہ کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ جن سینیئر لیڈروں کو ان کے دعوؤں اور توقعات کے برعکس کابینہ سے باہر رکھا گیا ان میں مشتاق غنی ، انور زیب خان ، فضل الٰہی ، کامران بنگش ، تیمور جھگڑا اور شوکت یوسفزئی سرفہرت ہیں۔ آخر الذکر تین لیڈر اسمبلی پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں تاہم بڑے یقین کے ساتھ کہا جارہا تھا کہ ان کو دستیاب طریقہ کار کے مطابق معاونین یا مشیروں کی حیثیت سے کابینہ میں کھپانے کی پالیسی اختیار کی جائے گی مگر ان میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا جس پر دوسروں کے علاوہ تحریک انصاف کے سنجیدہ حلقے بھی حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ ان میں سے بعض اتنے پُرامید تھے کہ انہوں نے میڈیا کو اپنے مجوزہ محکموں کے نام تک فراہم کیے تھے مگر سب کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔